ہاں! تو جناب جاوید چوہدری صاحب آپ بھی لبرل نکلے۔آپ کہ جو سماج کے حالات کے پیش نظر کہتے تھے حالات کا تھور آپ کے حلق اور نظام کی سیم آپ کی زبان تک پہنچ چکی ہے باہر اور اندر کی تلخی مل کر زہر بن چکی ہے۔ اور یہ ایسا زہر ہے جو ہر وقت آپ کی رگوں سے الجھتا اور سانسوں سے جھگڑتا رہتا ہے۔ ہاں! آپ کہ جو کہتے تھے کہ آپ کے بارہ سالہ لکھنے کے عرصے میں تلخی کے سوداگر بن چکے ہیں ۔۔۔۔کڑواہٹ کے بیو پاری بن کر روز معاشرے کے ہاتھوں کڑواہٹ خرید کر ، اسے کات کر، اس کی چادر بناتے ہیں،تلخی کی چادر۔۔۔ پھر اسے خون کے ڈرے سہمے قطروں کے اور زندگی کی شرمندہ سانسوں کے عوض معاشرے کو بیچ دیتے ہیں۔آپ کہ جو ظلم ، جابریت کے خلاف جہاد بالقلم کے اونچلے درجے پر فائز تھے آپ ہی کا کہنا تھا معاشرے میں بڑھتا ہوا تعصب اور فرقہ بندیاں نوجوان نسل کو پاکستان کی محبت سے دور کر رہے ہیں۔۔۔انہیں اسلام اور خدا کا تصور واضح کرنا بہت ضروری ہے۔ آپ کہ جوظلم کے خلاف لکھتے تو حساسیت کو لفظوں میں پرو کر بے ضمیر افراد کے ضمیر کو جھنجھوڑتے۔آپ جب بات کرتے تو گویا یوں لگتا زبان سے پھول جھڑ رہے ہیں۔آپ کا ہی کہنا تھا اسلامی روایات کی پاسداری مسلم امہ کو پھر سے مضبوط قوم بنا سکتی ہے۔
آپ کی جو اپنا نام لکھتے تو ساتھ محمد کا لفظ اس لیے استعمال کرتے کہیں محمد کے نام کے ساتھ جڑے اس شخص کو برا کہتے ہوئے محمد کے نام کے باعث تنقید کرنے والوں پر بخشش کے دروازے بند نہ ہو جائے۔آپ ہی کا کہنا تھا کہ آپ کے وسیع الفکرذہن کے مالک استاد فضل حسین نے ایک دفعہ آپ کو دو لائنوں کی سمری پے ہلا کے رکھ دیا تھا جس میں خاموشی سے فرقہ پرست اپنے ہی بھائیوں کا قتل عام کر تے ہیں، ایسی فرقہ بندیاں جو اقوام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہیں۔جن کا شعور بہت ضروری ہو گیا ہے۔آپ کہ جو معاشرے کے بگاڑ کو اس انداز سے بیان کرتے کہ کٹھور سے کٹھور انسان بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا۔
آپ کہ جو لکھتے تو محسوس ہوتا وہ کردار کہیں ہمارے بہت آس پاس ہیں ۔۔۔آپ اپنے علم اور قلم کی بدولت لفظوں کو حقیقت کا روپ دینے میں مہارت رکھتے۔۔آپ کہ جو اعلیٰ طبقے کو احساس دلا کر کرپشن ، بد عنوانی اور رشوت سے بچانے کی فکر میں رہتے ، اپنی تجوریاں بھرنے والوں کو غریبوں کی بھوک کا احساس دلاتے، اعلی طبقے سے امید رکھتے غریبوں کی امداد کے لیے۔۔۔۔۔آپ جو جدید جنریشن کے ہیرو سنجے دھت اور ہیروئن مادھوری سے خوفزدہ ہو کے فاطمہ بنت محمد کی مثالیں دیتے۔
Young Generation
نوجوان نسل کی انڈین کلچر سے متاثرایت دیکھ کر اسلامی شعار کی خوبصورتی پیش کرتے۔ جب پاکستان کے نوجوان حب وطنی سے پرے نظر آتے تو انہیں بزرگوں کی قربانیوں کا بتا کرفکر کی دعوت دیتے۔ ۔۔۔آپ کہ جو لکھاریوں کی اس فہرست میں تھے جنہیں اللہ اپنے فضل و کرم سے غافل دلوں کے مقفل توڑنے اور ذہنوں سے غنودگی کا غبار ختم کرنے کے چنتا ہے، جن کی قلم کو ایسی قوت بخشی جاتی ہے جو کند ذہنوں پے بھی اثر رکھتی ہے۔آپ کہ جن پر خدا نے رحمت کر کے جہاد کے لیے منتخب کر لیا ۔آپ کی قلم کو خدا نے خون میں نہلا کر آپ کے تخیل کو فولاد بنا کر لفظوں کے موتیوں کو سیپ میں پرونے کا ہنر دیا ۔۔۔ایسا ہنر جو قوموں کی بنیاد بینی ہے ، ایسا ہنر جو قوموں کے لیے تلوار سے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔
مگر افسوس! چوہدری صاحب آپ بھی لبرل نکلے۔یہی المیہ ہے اس ملک کا! جب تک انسان مسلمان رہتا ہے تب تک درد دل رکھتا ہے۔ ہمارا ذہن ،ہماری آنکھیں تب تک محب وطن رہتی ہیں جب تک ہم سلیوٹ وصول نہیں کر تے ۔۔۔آپ بھی ان ہی لوگوں میں نکلے جنہیں جب خدا موقع دیتا ہے تو اپنی ذات کو ترجیح دیتے ہیں۔افسوس! ایک شخص جو گھر سے نکلا تو عزم انسانیت سے سر شار تھا منزل پر پہنچا تو خود سے شرمندہ ہوگیا۔تحریر: سحرش منیر