ذرا سی دیر کو تری گلی کے موڑ پہ اسی شجر کے سائے میں کہ جس کی ایک شاخ پہ کھلا تھا گل بہار کا اور اس میں رنگ تھے کئی تری نظر کو بھا گیا نجانے کیسے گل وہی میں لے اڑا تھا شاخ سے یہ مدتوں کی بات ہے گئی رتوں کی بات ہے کھڑا ہوں آج پھر وہیں اسی شجر کے سائے میں کھلا ہے گل بھی شاخ پہ میں لے اُڑا ہوں پھر اُسے لگا ذرا سی دیر تو میرے آس پاس ہے ہوا تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو گزر گئی مجھے اُداس کر گئی تری گلی کے موڑ پہ اسی شجر کے سائے میں