کراچی کی صورتحال پر سپریم کورٹ ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جاری ہے۔جماعت اسلامی کے وکیل عبدالقادر جتوئی کا کہنا تھا کہ کراچی میں ٹارگٹ کرکے قتل و غارت گری کا سلسلہ 1985 میں شروع ہوا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم اتنا پیچھے نہیں جاسکتے موجودہ صورتحال میں آپ کا کوئی کیس بنتا ہے تو عدالت کو بتائیں۔آج کی سماعت میں جماعت اسلامی کے وکیل عبدالقادر جتوئی نے عدالت کو بتایا کہ سینیٹ کے انتخابات اور اقتدار کے بندر بانٹ کے لیے کراچی میں حکومتی سرپرستی میں قتل و غارت گری ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے اہم انکشاف کیے ہیں اور وہ ان حالات کے گواہ بھی ہیں۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ اگر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے کچھ کہا تو آپ ان کا حلف نامہ لائیں اور آئینی درخواست دائر کریں تو اس کی تحقیقات کرائی جاسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کام گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنا نہیں اس کے لیے علیحدہ آئینی درخواست دائر کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو کیوں بلائیں وہ خود کچھ کہنا چاہتے ہیں تو اپنا بیان حلفی جمع کرائیں۔ عبدالقادر جتوئی نے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی سی ڈی بھی پیش کی۔ اس موقع پر عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجونے کہا موجودہ حکومت ڈمی ہے یہ صرف عوام سے ٹیکس لینے کے لیے ہے، اصل اقتدار تو امریکا کے پاس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر آدمی جانتا ہے کہ یہ ایم کیو ایم کا کام ہے لیکن کوئی ان کا نام لینے پر آمادہ نہیں، ججز تک خوف محسوس کرتے ہیں،ملک کے تمام قوانین ایم کیو ایم کے سامنے بے بس ہیں ۔ فرینڈ آف لیاری کی جانب سے خواجہ نوید نے سپریم کورٹ کے سامنے دلائل دیئے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا لارڈ نذیر صاحب نے لیاری دیکھا ہے کیا آپ کبھی لیاری گئے ہیں چیف جسٹس نے سوال کیا فرینڈ آف لیاری کون سی تنظیم ہے ۔اس پر خواجہ نوید نے عدالت کو بتایا کہ یہ لندن میں رجسٹرڈ ہے اور لارڈ نذیر اس کے پیٹرن ہیں۔جیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ تنظیم آپ نے تو نہیں بنائی۔خواجہ نوید نے شعر پڑھا کہ میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے ہاتھ پر تلاش کریں۔خواجہ نویدکا کہنا تھا کہ حکومت سندھ عوام کے حقوق کو تحفظ دینے میں ناکام ہوگئی ہے۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دنیا بھر میں مافیاز اور اس طرح کے مسائل سے نمٹنے کے لیے کیا قانونی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے آپ ہمیں وہ بتائیں۔ خواجہ نوید نے عدالت کو بتایا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے انسداد دہشت گردی کے قانون میں فوج کو بلانے کی شق موجود ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارا مقصد یہ نہیں ہے ڈی جی رینجرز یہاں بیٹھے ہیں 306 لوگوں کے قتل کے بعد رینجرز کو اختیارات دیئے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب سول ادارے موجود ہیں رینجرز اور پولیس ڈلیور کرسکتی تو کیوں دوسری طرف دیکھ رہے ہیں۔ کٹی پہاڑی پر بھی رینجرز گئی تو امن قائم ہو گیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ پولیس میں غیر سیاسی اور قابل آفیسر تعینات کیے جائیں جو معاملات کو آزادانہ ہینڈل کرسکھیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کی طرف سے ازخود نوٹس کیس میں فریق بنے کی درخواست آج دائر کی جارہی ہے۔