بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات کے لیے اپنے منشور میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایودھیا میں متنازعہ رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے اور اقلیتوں کے لیے ساڑھے چار فیصد کوٹہ ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔انتخابی منشور میں رام مندر کی تعمیرکا وعدہ شامل کیے جانیکی توقع نہیں تھی کیونکہ پارٹی کے صدر نتن گڈکری نے حال ہی میں کہا تھا کہ اس تنازع کو اترپردیش میں انتخابی موضوع نہیں بنایا جائے گا۔ریاست کے دارالحکومت لکھن میں بی جے پی کی ریاستی یونٹ کے صدر سوریہ پرتاپ شاہی نے انتخابی منشور جاری کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے وعدے پر قائم ہے اور اسے پورا کیا جائے گا۔رام جنم بھومی بابری مسجد کے تنازع پر الہ آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ برس یہ فیصلہ سنایا تھا کہ متنازعہ اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرکے تینوں فریقوں کو دے دیا جائے۔ لیکن ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے جہاں کیس کی سماعت ابھی شروع نہیں ہوئی ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے اتر پردیش کے انتخابات کے لیے مدھیہ پردیش کی سابق وزیر اعلی اوما بھارتی کی خدمات حاصل کی ہیں اور انہیں ریاست کے بندیل کھنڈ علاقے سے امیدوار بھی بنایا گیا ہے۔ یہ علاقہ مدھیہ پردیش سے ملحق ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ اوما بھارتی کو پارٹی میں واپس لا کر اترپردیش کی انتخابی مہم میں پیش پیش رکھنیکا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ پارٹی اپنے ہندوتوا کے ایجنڈے پر واپس لوٹنا چاہتی ہے۔ انتخابی منشور میں رام مندر کے وعدے سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے۔چھ دسمبر سنہ انیس سو بانوے کو جب ہندو مذہبی رضاکاروں یا کار سیوکوں نے بابری مسجد کو مسمار کیا تھا، اس وقت بی جے پی کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی اور اوما بھارتی اجودھیا میں مسجد کے قریب سٹیج پر موجود تھے۔ اوما بھارتی ماضی میں کئی مرتبہ یہ کہہ چکی ہیں کہ چھ دسمبر کو اجودھیا میں جو ہوا تھا اس پر انہیں کوئی افسوس نہیں ہے۔منشور کے اجرا کی تقریب میں بی جے پی کے رہنماں نے مندر کی تعمیر کی مخالفت کرنے پر کانگریس، سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی پر تنقید کی۔منشور میں کہا گیا ہے کہ عوام کے لیے یہ مسئلہ جذباتی نوعیت کا ہے اور پارٹی مندر کی تعمیر کے وعدے پر قائم ہے۔اقلیتوں کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے حال ہی میں کیے جانے والے ساڑھے چار فیصد ریزرویش کو ختم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے مسٹر شاہی نے کہا کہ مذہب کی بنیاد پر کوٹہ کی پالیسی خطرناک ہے اور بی جے پی اقتدار میں آنے پر اس فیصلے کو منسوخ کردے گی