رشتہ

hungry dog

hungry dog

گرمی کی ایک لمبی سنسان دوپہر تھی، فیضو اپنے مکان کے آگے سڑک کی دوسری جانب ریلوے کمپاؤنڈ کے سامئے میں چارپائی پر ٹانگیں پھیلائے سستا رہا تھا۔ سامنے برآمدے میں اسکی بیوی چرخہ کات رہی تھی۔ وہ خیالات کی گہرائیوں میں گم تھا۔ نیلے آسمان کی گہرائیوں میں اڑتی ہوئی چیل کیطرح گم۔ وہ اپنی زندگی پر غور کر رہا تھا۔ غریب کی زندگی، پیٹ خالی ہونے پر دماغ بھر جاتا ہے، طرح طرح کے خیالات سے قریب ہی قصاب کی دوکان کے آگے ایک نوکر کسی بڑے آدمی کے خوبصورت کتے کو تازہ کچا گوشت کھلا رہا تھا اور نزدیک ہی ایک بیمار بھوکا کتا للچائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ بڑے آدمی کے خوبصورت کتے کو تازہ کچا گوشت کھلا رہا تھا اور نزدیک ہی ایک بیمار بھوکا کتا للچائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ بڑے آدمی کا خوبصورت کتا۔ بیمار بھوکا کتا، تازہ کچا گوشت بڑے آدمی، بھوکے غریب، زندگی، بڑا اونچا فلسفہ تھا۔ فیضو کے دماغ میں کسی طرح نہ آنا تھا۔

اچانک وہ چونک پڑا۔ کوئی اسے پکار رہا تھا۔
فیضو بھیا۔ ارے او فیضو بھیا۔
فیضو نے چارپائی سے اٹھ کر دیکھا۔ ایک دیہاتی کندھے پر کپڑوں کی گٹھری ہاتھ میں ایک موٹا سا لٹھ تھامے لمبے لمبے ڈگ بھرتا فیضو کیطرف آ رہا تھا۔

relationships

relationships

ارے کون رحمو۔ فیضو کے چہرے سے خوشی ٹپک رہی تھی۔
بستی سے آ رہا تھا۔ راضی خوشی تو ہے اور سب اچھے تو اچھے ہیں، بیٹھ جا بھیا، یہاں بیٹھ۔ ایک نامعلوم مسرت آ گئی جذبہ میں جو کسی اپنے کو دیکھنے پر پیدا ہوتا ہے۔ اس نے ایک ہی سانس میں سب سوالات کر ڈالے۔
رحمو نے کپڑوں کی گٹھری چارپائی پر رکھ دی۔ لٹھ کمپاؤنڈ کے سہارے کھڑا کر دیا۔ سامنے برآمدے میں فیضو کی بیوی چرخہ کاتنے میں مشغول تھی۔ رحمو نے دیکھا کچھ معنی خیز نظروں سے۔ رومال سے پیروں کی گرد جھاڑتے ہوئے کہا۔
واہ فیضو بھیا شادی کب کی؟ ہمیں خبر تک نہ کی۔
فیضو نے شرما کر اپنی بیوی کیطرف دیکھا اور بیوی نے یہ لمبا گھونگھٹ کاڑھ لیا۔ فیضو نے شرم مٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
ہاں بھیا۔ تو نے تو بتایا ہی نہیں بستی چھوڑ کر کیسے آنا ہوا؟ بستی کی کیا خبر ہے۔ کیا تجھے اپنی بستی سے نفرت ہو گئی ہے۔ رحمو تو ابھی بچہ ہے۔ اپنی بستی ان بڑے شہروں سے اچھی ہے۔ اپنے لوگ یہاں کے اچھے اچھے کپڑے پہننے والوں سے اچھے ہیں۔ بھیا! اب بھی جب کبھی میں اپنی بستی اور اپنے لوگوں کو یاد کرتا ہوں تو بہت دیر تک کچھ سوچنے لگ جاتا ہوں اور میری آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔

فیضو بھیا۔ رحمو نے بات کاٹ کر کہا۔ تو اپنی بستی اپنے لوگ کہہ رہا ہے اب اپنی بستی میں کیا دھرا ہے۔ جہاں پیٹ بھر جائے اپنی تو وہی بستی ٹھہری اب۔ تو اپنے لوگ اپنی بستی کہہ رہا ہے۔ یہ تیری بھول ہے۔ دنیا میں اپنا کوئی نہیں ایک کا رشتہ دوسرے سے کچا دھاگا ہے۔ سنا بھیا۔

Thread Raw White

Thread Raw White

اور سنو! پچھلی وبا میں میرے ماں باپ دونوں مر گئے۔ چاچا خدا بخش میت تک میں بھی شریک نہ ہو سکے۔ میرے پاس جو کچھ تھا سب کفن دفن فاتحہ میں خرچ ہو گیا۔ ابھی باپ کی لاش کا کفن بھی میلا نہ ہوا ہو گا کہ چاچا خدا بخش شہر سے دو تین سوٹ بوٹ پہنے ہوئے بابوؤں کو ساتھ لیے لوٹے۔ ایک دن ایک بابو نے مجھ سے کہا۔ قانون کی رو سے ساری جائیداد تمہارے چاچا خدا بخش کی ہے۔ کچھ نہ پوچھو بھیا۔ اسی خیال کیساتھ ہی میرے دل پر بجلی سی گر پڑی۔ عجیب نرالا قانون ہے یہ بھیا۔ حقداروں کے گلے پر ہی چھری پھیرتا ہے۔
فیضو نے رحمو پر اپنی شہریت کا رعب ڈالتے ہوئے جواب دیا۔
ارے بھیا۔ یہ قانون مایا کا کھیل ہے۔ جس کی جیب گرم ہو وہ قانون بیچ سکتا ہے۔ وہ قانون توڑ سکتا ہے۔ مصیبت تو ہماری تمہاری ہے۔

رحمو پھر کہنے لگا۔
چاچا خدا بخش نے تیسرے روز مجھے گھر سے بے دخل کر دیا۔ پنچ نے بھی اپنا یہ بڑا سر ہلا دیا۔ میں نے اپنا سر پیٹ لیا لیکن کہیں سر پیٹ لینے سے پیٹ کی آگ بجھ سکتی ہے، آسان ہے۔ اسطرح شہر میں نوکری حاصل کرنا بھی آسان ہے لیکن آج چار روز سے نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوں لیکن نوکری کا کہیں پتہ نہیں۔ تمہاری ہی تلاش تھی بھیا۔ اچھا ہوا تم مل گئے۔
فیضو نے اپنی مہمان نواز طبیعت کا اسطرح مظاہرہ کیا۔
ہاں ہاں بھیا۔ اب تو کہیں نہ جائیو۔ ارے تو کوئی غیر ہے۔ میرا گھر تیرا گھر ہے۔ یہیں رہیو۔

دن گزرتے گئے۔
ایک دن شام کو فیضو کارخانے سے خوش خوش گھر کیطرف دوڑا جا رہا تھا۔ اسکی میلی جیکٹ کالی نگر کی جیب میں آج ساڑھے آٹھ آنے تھے۔ ایک دم ساڑھے آٹھ آنے آج وہ بہت خوش تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ رحمو کے آگے اب کہیں ڈینگیں مارے۔ اپنی بیوی پر اپنے تمول کا کیسے رعب ڈالے۔

in tention

in tention

اسی قسم کے کئی خوش آئند خیالات اس کے دماغ میں بے پناہ تیزی سے گھسے جا رہے تھے۔ لیکن جیسے ہی گھر میں داخل ہوا اسے معلوم ہوا کہ وہ کسی آسیب زدہ ویران مکان میں گھس آیا ہے۔ مکان میں قبرستان کی سی خاموشی تھی۔ موت کا سا سناٹا۔ اسکی بیوی اور رحمو کا کہیں پتہ نہ تھا۔ اس نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے سامنے دیوار پر دیکھا۔ ایک مکڑی ایک مکھی کو پکڑے اپنے جالے میں گھس رہی تھی۔ اب فیضو کی دنیا ہی بدل گئی تھی۔

اسکی زندگی میں نئی تبدیلی تھی۔ اسے زندگی میں بربادیاں ہی بربادیاں نظر آ رہی تھیں۔ زندگی کی کانٹوں بھری سیج پر کانٹوں کی خلش سے وہ تڑپ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اپنے وجود سے زندگی اور موت کا تجزیہ کر دے لیکن قدرت اسے زندگی کا ایک اہم مہرہ سمجھ کر موت کی گھات سے بچا رہی تھی۔

ایک دن تڑکے ہی وہ اپنے مکان کے آگے چارپائی پر بیٹھا تھا۔ ایک میلا گندہ شخص اسکے سر کی چمپی کر رہا تھا۔ چمپی کرنیوالے نے اسکے سر پر چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔
چاچا! کچھ سنا تم نے۔ جرمن کی جنگ پھر ہو گئی ہے۔ بھرتی ہو رہی ہے بھرتی۔ کیا کہا؟ بھرتی ہو رہی ہے۔ فیضو نے چونک کر پوچھا اور پھر گہری سوچ میں مستغرق ہو گیا۔

تھوڑی دیر بعد چمپی کرنیوالے نے زور سے جمعدار کو آتے دیکھا اور کہا۔
چاچا جمعدار آ رہا ہے۔ اب میں چلا۔
چمپی کرنیوالا تیل کی رنگین شیشیاں لیے بھاگا جا رہا تھا۔ جمعدار اپنی گل مونچھوں پر ہاتھ پھیرتا ہوا آگے بڑھا۔ اسکی نظریں فیضو کے مضبوط اور گٹھے ہوئے جسم پر پھیل رہی تھیں۔ قبل اسکے جمعدار پہلے کوئی گالی اور بعد میں کوئی کام کی بات کہے۔ فیضو نے آگے بڑھ کر کہا۔
حجور۔ سنا ہے۔ جرمن کی جنگ پھر ہو رہی ہے۔ میں بھی بھرتی ہونا چاہتا ہوں۔ میرا بھی نام لکھ دینا۔

جمعدار نے حیرت سے اسکیطرف دیکھا اور ایک بڑے رجسٹر میں فیضو کا نام لکھ دیا اور فیضو نے اپنے نام کے آگے سیاہی میں بھیگا انگوٹھا لگا دیا۔

london

london

لندن کی آئینہ جیسی شفاف سڑک پر فیضو اور اسکے ہندوستانی ساتھی جو بھرتی ہو کر آئے تھے۔ فوجی جرنیلوں کیطرح اکڑے پھر رہے تھے۔ فیضو ایسا محسوس کر رہا تھا جیسے کسی نے اسے دوزخ سے نکال کر جنت میں پہنچا دیا ہے۔ عجیب رنگین دنیا دیکھ رہا تھا وہ حسین حسین عورتیں۔ رنگ برنگ لباسوں میں گورے گورے مرد کالے کالے سوٹوں میں رنگ برنگی تیتریاں کالے کالے بھنورے لیکن اس خوش باش دنیا میں پہنچ جانے کیبعد بھی وہ ہندوستان کو نہ بھول سکا۔

وہ ایک اجنبیت محسوس کر رہا تھا۔ اس پر تصخ اور بناوٹی زندگی دیکھ کر اسے ہندوستان کی سادہ اور فطری زندگی یاد آ رہی تھی۔ اچانک اسکی نظر سامنے سے آتے ہوئے خوش باش جوڑے پر پڑی۔ مرد ایک کالے سوٹ میں ملبوس تھا اور اسکے سوٹ کا رنگ چہرے کے رنگ سے بڑا اچھا مقابلہ کر رہا تھا۔ اسکا ایک ہاتھ ایک گوری میم کی پتلی کمر کے اطراف نصف دائرہ بنا رہا تھا۔ فیضو نے اپنے دیس کی وضع قطع کا پہلا آدمی یہاں پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ اسنے اپنے ایک ساتھی سے کہا۔
یہ بابو اپنے دیس کا معلوم ہوتا ہے۔

اسکے ساتھی نے اسے مذاق میں ٹال دیا لیکن فیضو نے ایسا محسوس کیا گویا وہ شخص ایک بڑا مقناطیس ہے جو بڑی قوت سے اپنی جانب کھینچ رہا ہے اسکے دل میں ایک نامعلوم جذبہ اُبل رہا تھا۔ اسکا دل اسکی جانب کھینچا جا رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ دوڑ کر اسکے قریب جائے اور اس سے پوچھے کہ اسکے دیکھنے پر اسکے دل کا یہ حال کیوں ہو رہا ہے۔ اسے سلام کیا اور کہا۔

بابو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم ہندوستانی ہو۔ میں بھی ہندوستانی ہوں جنگ کیلئے بھرتی ہو کر آیا ہوں۔ مجھے اپنے دیس سے دور آج اپنے دیس کے آدمی کو دیکھ کر کتنی خوشی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بکو مت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خاموش رہو۔ اس کالے سوٹ والے بابو نے اسے جھڑک کر کہا۔ گوری میم فیضو کو، اسکے خاکی لباس کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ کہہ رہا ہے تم ہندوستانی ہو۔ ہاں ہندوستانی ہوں مگر کیا تمہارے پیر پر سر رکھ دوں۔
ایڈیٹ بھاگ جاؤ یہاں سے۔

فیضو جھنیپ گیا۔ میم ہنس پڑی۔ ایک عورت کے سامنے اسکی ہتک اسکے ساتھیوں کے سامنے یہ بے عزتی مگر فیضو نے جھنیپ مٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
بابو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔۔۔
شٹ اپ یو فول۔
دونوں قہقہے لگاتے ہوئے چلے گئے۔ اسکے ساتھی اسکا مذاق اڑانے لگے مگر وہ سوچ رہا تھا کہ پردیس میں اپنے دیس والے کو دیکھ کر جو خیالات اور جذبات فیضو کے دل میں پیدا ہوئے وہ کیوں اس کالے سوٹ بوٹ والے بابو کے دل میں پیدا نہیں ہوئے۔ اس نے فیضو کو اپنا کیوں نہیں سمجھا۔ فیضو اپنے فلسفے پر غور کرنے لگا۔

صبح ہو رہی تھی۔ دھوئیں کے بادلوں کو چیرتے ہوئے سورج کی نظر نے دیکھا کہ زمین پر بڑی تباہی مچی ہوئی ہے۔ خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ لاشوں کے ڈھیر روندے جا رہے ہیں۔ زخمی اپنی کراہ سے فضا میں درد ملا رہے ہیں۔ فیضو بھی ایک ریت کے تھیلے کے پیچھے منہ کے بل لیٹا یہ بھیانک نظر دیکھ رھا تھا ۔

اچانک دشمن کا ایک سپاہی بری طرح چوٹ کھا کر اس کے قریب گرا فیضو نے اپنی بندوق اُٹھائی اور قریب تھا کہ وہ بندوق کی لب لبی دبا دیتا مگر اس نے ایسا محسوس کیا کہ کوئی اس کے کان میں چیخ رھا ہے۔
”کیا کرتا ہے فیضو !رے۔ دیکھتا نھیں یہ تیرا بھائی ہے۔ انسان ”۔
” ایک بھائی کی اولاد – رشتہ خون کا رشتہ”۔
فیضو کی بندوق ایک دم جھک گئی۔

gun

gun

دُشمن کے سپاھی نے فیضو کی جھکی ہوئی بندوق کو دیکھا ، اپنی بندوق اُٹھائی اور دھڑے سے چلا دی۔

فیضو نے ایک بڑی خوفناک چیخ ماری اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھا کہ۔
گرمی کی ایک لمبی سنسان دوپھر ہے ۔ وہ اپنے مکان کے آگے ریلوے کمپاؤنڈ کے سائے میں چارپائی پر ٹانگیں پھیلائے سستا رھا ہے اس کی بیوی برآمدے میں چرخہ کات رہی ہے۔ اس کی بستی کا رہنے والا رحمو چارپائی پر بیٹھا اس کی بیوی کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ کرکہہ رھا ہے۔ یہ تیری بھول ہے فیضو بھیا ۔ اپنا اس دنیا میں کوئی نھیں ایک انسان کا رشتہ دوسرے سے گویا کچا دھاگا ہے۔

تحریر: ابراہیم جلیس