چند ماہ قبل ڈینگی بھائیوں اور بہنوں نے پنجاب حکومت کو ناکوں چنے چبھوائے اور اس سے عوام کو چھٹکارہ دلانے میں پنجاب کی انتظامیہ نے خا صی تگ ودو کی جن میں جناب وزیر اعلیٰ پنجاب نے ذاتی اور خصوصی طور پر اس وبا سے نمٹنے کے لیے اپنی نگرانی میں اپنی انتظامیہ کو متحرک رکھااس سلسلے میں پرائیویٹ ہسپتالوں اور لیبارٹریوں کو بھی اس امر کا پابند بنایا گیا تھا کہ وہ 90روپے میں ڈینگی کی ابتدائی تشخیص کا ٹیسٹ کریں ۔انہی دنو ں اخبارات میں راولپنڈی میں موجود چند بڑے ہسپتالوں میں مختلف سٹاف کی بھرتی کے اشتہارات بھی شائع ہوئے تھے اور وقتاً فوقتاًیہ اشتہارات کم وبیش تین سے چار دفعہ اخبارات کی زینت بنتے رہے جن میں ہولی فیملی ہسپتال ،بینظیر بھٹو ہسپتال ،رولپنڈی میڈیکل کالج اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال راولپنڈی خاص طور پر سر فہرست ہیں ان اشتہارات میں واک ان انٹرویو کے لیے بلایا جاتا رہا اس لیے صاحب موصوف بھی انٹر ویو کے لیے مقررہ اوقات میں گیا تھا جن میں دوسرے امیدوار بھی شامل ہوئے مگر ہر با ر انٹر ویو ملتوی کر دیئے جاتے اور ہر بار ایک ہی بات سننے کو ملتی کہ انٹر ویو کی تاریخیں بڑھائی جا چکی ہیں لحاظادوبارہ اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے مطلع کر دیا جائے گا ۔یو ں ہر دفعہ ایک ہی طرز کے اشتہارات نئی انٹرویو کی نئی تاریخوں کے ساتھ اخبارات کی زینت بنتے رہے اور ہر بار ان اشتہارات میں یہ بات خاص طور پر عیاں کی جاتی تھی کہ صوبہ پنجاب میں ڈینگی کی وبا پھیلنے کی وجہ سے انٹرویو کی تاریخیں بڑھائی جا رہی ہیں ۔۔۔!ہمارے ہاں عقل سے عاری ایسے لوگ بھی انتظامی امور چلا رہے ہیں جہاں ڈینگی کی وبا سے ہر کوئی پریشان حال تھا اور جلد از جلد سٹاف کی بھرتی کرنے کی بجائے اس میں غیر معمولی طرز کی تاخیر کی جارہی تھی چونکہ اند کی بات کچھ اور ہی بتا رہی تھی چونکہ مجھے ہولی فیملی ہسپتال کے ایک خاص اور مستند ذرائع سے معلوم ہو اتھا کہ کہ یہاں بھرتی ہونے کے لیے آپ کو پنجاب کے کسی وزیر یا پھر مشیر کی شفارش کی ضرورت ہے چونکہ یہاں ان کی شفارش پر ہی بھر تیاں کی جارہی ہیں میرے پاس شفارش کے ذرائع بھی تھے مگر میرے ضمیر نے مجھے ایسا کرنے کی اجازت نہ دی اور ایک صحافی ہونے کے ناطے ایسا کرنا میرے شیان شان نہ تھا۔باربار اشتہارات کا اخباروں کی زینت بننے سے دو اہم پہلو تبھی میری سمجھ کی گھتی میں سلجھ پائے تھے کہ ایک تو یہ ساری بھرتیاں سفارشی ہیں اور دوسرے ان ہسپتالوں کے پاس فنڈ بھی وافر مقدار میں موجود ہیں تبھی تو بار بار اشتہارات اخبار میں شائع ہو رہے ہیں اور اس بار بار اشتہارات کی مختلف تاریخوں میں ہم جیسے محنتی اور لکیر کے فقیر امیدوروں کو انٹر ویو کے لیے باربار طلب کر کے عاجز کردیا جائے گا اور اس طرح ہم آنا ہی چھوڑ دیں گے اور میرے ساتھ تو بالکل ایسا ہی ہوا چونکہ جب چوتھی بار ہم نے دوبارا نہ جانے کی ٹھان لی تھی تو تبھی مجھے اندر کی بات کا علم ہو گیا اور پھر دوبارہ ان شفارشی بھرتیوں کے بارے میں سوچنا ہی ترک کردیا ۔حالانکہ جب تیسری بار اشتہارات اخبار میں شائع ہو ئے تھے تو تب ڈینگی کی وبا بھی خاصی تھم گئی تھی اور اس موقع ہسپتالوں کی انتظامیہ بھی خاصی مبارک کی مستحق تھی کہ انھوں نے کمال ہنر مندی سے بھرتی کے لیے آنے والے لاچار امیدواروں کی تعداد میں کمی کر کے شفارش پر بھرتی ہونے والوں کا راستہ ہموار کر دیا تھا ۔ہمیں امید تو تھی کہ ہماری بھی سلیکشن کہیں نہ کہیں ہو ہی جا ئے گی چونکہ ہر اشتہار میں میرٹ کو یقینی بنانے کی یقین دہانی بھی کروائی جاتی رہی تھی مگر ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ محض کھوکھلی تسلیا ں ہی ہیں ۔ اس تحریر کی وساطت سے جناب وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے گزارش ہے کہ ان ہسپتالوںکی بھرتیاں وزیروں اور مشیروں کی شفارش کی مرہوں منت تھیں تو پھر محنتی اور ذہین طالب علموں کو ان کا حق نہ ملنا کہاں کا انصاف ہے ؟؟انصاف کے تقاضے صرف یہ نہیں کہ رشوت ستانی کو بالائے طاق رکھ دیا جائے اور شفارش کلچر کے فروغ کی خاطر خواہ نفی نہ کی جائے ۔۔۔!انصاف کے تمام تر تقاضے تبھی پورے کیے جا سکتے ہیں جب رشوت کے ساتھ ساتھ شفارش کلچر کا بھی گلا گھونٹ دیا جائے گو کہ پنجاب حکومت رشوت ستانی کے حوالے سے خاصی پاک دامن کی حامل ہے مگرشفارش کے اعتبار سے حکومت میں خاصی گہما گہمی پائی جاتی ہے امید ہے کہ جناب شہباز شریف اپنی انتظامیہ کی اس حوالے سے بھی خبر گیری فرمائیں گے اور ایسے فعل کی روک تھام کے لیے خاطر خواہ انتظامات بھی کریں گے کیونکہ ایسی گہما گہمیاںان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا رہی ہیں ۔چونکہ ذہین اور قابل لوگ آپ سے انصاف سے متقاضی ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان ہسپتالوں میں بھرتیوں کی طرح دوسرے معاملات میں بھی ان کی حق مارا جائے ۔چونکہ ابھی بہت سے آشیانے مستحق لوگو ں کے حوالے کرنے باقی ہیں ایک لاکھ لیپ ٹاپ کی تقسیم بھی رہتی ہے اور بالکل اسی طرح پنجاب حکومت کا ایک اہم پروجیکٹ راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے اور وہاں بھی نجانے کس کس ا میدوار کو کس کس وزیر و مشیر کی شفارش کی ضرورت پڑے۔محمد قمر اقبال کمال