روشن نقطہ

طور سے بڑھ کے اپنا حال ہوا
صرف ایک بار من میں جھانکے تھے

Alone

Alone

” میں محبت کیا ہارا، دین اور دنیا بھی ہار گیا”
پیر سائیں نے میری بات سن کر مجھے غور سے دیکھا
” محبت میں ہار جیت کوئی معنی نہیں رکھتی” پیر سائیں کی آواز میں تھرتھراہٹ تھی، لیکن پہلے اپنا قصہ سنائو۔ وہ مجھے چاہتی ہے ۔ بس میں اسے چاہتا ہوں مگر وہ ادھر ادھر بھٹکتی پھر رہی ہے اور جان بوجھ کر بھٹکتی پھر رہی ہے۔
” مجھے وہ خاصی ذہین لگتی ہے ۔ جان بوجھ کر بھٹکنے والے لوگ غیر معمولی ہوتے ہیں۔ پیر سائیں بھی شاید اسکے چاہنے والے نکلے۔
محبت کی شدت کے باوجود اس نے آج تک حجاب قائم رکھا ہے۔
میں نے اذیت کیساتھ کہا۔
” المحبة حجاب بین المحب والمحبوب۔ محبت خود محبوب اور محب کے درمیان پردے کا نام ہے۔
پیر سائیں نے آنکھیں موند کر عالم استغراق سے کہا۔
” اگر محبت خود پردہ ہے تو پھر یہ سب کچھ کیوں ہوتا ہے؟ میں نے پیر سائیں سے سوال کیا۔
” پردہ ہمارے اپنے اندر ہوتا ہے۔ اگر یکتائی کے سفر راست طور پر کیے جائیں تو سارے پردے چاک ہو جاتے ہیں۔
پیر سائیں مجھے وہ سفر بتائیں۔ میں پھر سے اپنا ٹوٹا ہوا سلسلہ جوڑنا چاہتا ہوں۔ میں نے ادب کیساتھ درخواست کی۔
پیر سائیں نے گہری سانس لی اور بولے۔

Allah

Allah

محبت کے چار سفر ہیں۔ کامیابی کیلئے یہ سفر ضروری ہیں۔
محب سے محبوب کیطرف۔ محبوب سے محب کیطرف۔
محب سے محب کی طرف۔ محبوب سے محبوب کی طرف
” پیر سائیں! کیا ان اسفار کیبعد گوہر مقصود مل جاتا ہے؟
میں نے خوشی کیساتھ سوال کیا۔
پیر سائیں نے کوئی جواب نہیں دیا تو میں نے پھر ادب کیساتھ اپنا سوال دہرایا۔ پیر سائیں نے پھر بھی جواب نہیں دیا۔ میں نے نطر اٹھا کر پیر سائیں کیطرف دیکھا۔ انکا گلا رندھا ہوا تھا۔ آنکھوں میں آنسو تھے اور شدت غم سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ پیر سائیں بھی محبت ہارے ہوئے تھے۔
” اللہ اکبر، پیر سائیں کے ڈیرے پر بیٹھے ہوئے ایک فقیر نے نعرہ لگایا۔ میں نے چونک کر اسے دیکھا۔ پیر سائیں نے بھی اسے حیرت سے اسطرح دیکھا جیسے پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔ اب وہ اپنی غم کی حالت پر بھی قابو پا چکے تھے۔
پیر سائیں! آپ تو شاید صرف محبت ہارے ہوئے ہیں مگر میں تو دین و دنیا بھی ہار چکا ہوں۔
” دین کو سمجھنے کیلئے دنیا کو سمجھنا ضروری ہے۔ تمام عوالم الہٰی کو سمجھ کر ہی کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔
مگر مجھے تو کسی نتیجے کا انتظار نہیں۔ میں تو اپنی بازی ہار چکا ہوں۔ میں نے مایوسی سے کہا۔
محبت کے اسفار کیطرح عوالم الہٰی کو بھی چار حصوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
پیر سائیں نے میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا بیان جاری رکھا۔
یوں تو عوالم الہٰی لامتناہی ہیں مگر اپنی سہولت کیلئے ہم نے انہیں چار حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔
پیر سائیں نے میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا بیان جاری رکھا۔
پیر سائیں! میں اپنی دنیا ہارنے کی بات کر رہا ہوں، آپ کون ومکاں کی باتیں فرما رہے ہیں۔ میں نے پھر پیر سائیں کو اپنے مسئلے کیطرف لانے کی کوشش کی مگر بے سود۔
پہلا عالم، عالم زمان ہے۔ یہ ایسا عالم ہے جس کی ابتدا اور انتہا دونوں ہیں۔
دوسرا عالم، عالم دہر ہے۔ اس عالم کی ابتدا معلوم مگر انتہا نامعلوم ہے۔
تیسرا عالم، عالم سرمد ہے۔ اس کی ابتدا بالکل نظر نہیں آتی مگر انتہا سمجھ میں آتی ہے۔
چوتھا عالم، عالم ازل ہے۔ اس کی نہ ابتدا کا پتہ ہے نہ انتہا کی خبر ہے، پیر سائیں چاروں عوالم بیان کر کے تھوڑا سا رکے اور پھر بولے۔
اب بتاؤ تم کونسی دنیا ہارے ہو؟
مجھے پیر سائیں کی پہلی بات کی سمجھ آ گئی۔ دین کو سمجھنے کیلئے دنیا کو سمجھنا ضروری ہے۔ واقعی ان دنیاؤں میں تو سب کچھ ہی آ گیا ہے اور میں اپنا آپ ہار چکا ہوں۔
حضرت! کیا یہ وہی چار عوالم ہیں جنہیں لاہوت، جبروت، ملکوت اور ناسوت بھی کہا جاتا ہے؟
ہاں،یہ وہی دنیائیں ہیں ۔ محبت کے چاروں اسفار ہوں یا عوالم الہٰی کے اسفار ہوں۔ طے ہونے پر آئیں تو ایک ہی جست میں طے ہو جاتے ہیں بلکہ سفر شروع کرنے سے پہلے طے ہو جاتے ہیں اور طے نہ ہوں تو آدمی ساری زندگی چکراتا پھرے۔ بھول بھلیاں میں ہی رہیگا۔
میں نے پیر سائیں کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ وہاں گہرے کرب کے آثار نمایاں تھے۔ لاحاصلی کا دکھ اپنے آپ ظاہر ہو رہا تھا۔ مجھے پیر سائیں بھی بھول بھلیاں میں چکراتے نظر آئے۔
”اللہ اکبر”
مجذوب فقیر نے پھر نعرہ لگایا اور مجھے محسوس ہوا کہ پیر سائیں اس بار گھبرا گئے ہیں۔
پیر سائیں! اس بھول بھلیاں سے نکلنے کی کیا صورت ہے؟
مجھے بھی مجذوب فقیر سے کچھ خوف محسوس ہونے لگا۔
توحید خداوندی پہ کامل ایمان۔ پیر سائیں نے مجذوب فقیر کو دیکھ کر تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
تو پھر مجھے توحید کا بھید سمجھا دیں۔
توحید کا بھید، پیر سائیں کی آواز لرزی، تم نے سنا نہیں۔ جو توحید کے بارے میں سوال کرتا ہے وہ جاہل ہے اور جو کوئی جواب دے کر اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے وہ مشرک ہے کیونکہ ” بے مثال ” کے بارے میں بتانے کیلئے اسی کسی مثال کا سہارا لینا پڑیگا۔ پیر سائیں کی لرزتی آواز اب جوش سے بھرنے لگی تھی اور توحید کی معرفت کا دعویٰ کرنے وہ ملحد ہے کیونکہ خدا لامحدود ہے اس لیے اسکا عرفان کبھی مکمل ہو ہی نہیں سکتا اور جو توحید کو نہ سمجھے وہ کافر ہے۔ پیر سائیں کے بیان سے میں جھومنے لگا۔ مجذوب فقیر نے بھی الا اللہ۔ الا اللہ کی صدائیں بلند کیں۔

BULLEH SHAH

BULLEH SHAH

سائیں پھر تو ساری بات ایک الف پر ہی تمام ہوتی ہے۔ مجھے بلھے شاہ یاد آ گئے۔
تم نے الف سے آگے کا سبق نہیں پڑھا۔ الف بھی زیادہ ہے۔
اس دفعہ پیر سائیں کی بجائے مذوب فقیر بولا اور مجھے یوں لگا جیسے بھونچال سا آ گیا ہے۔ پیر سائیں بھی اسے پھٹی بھٹی نظروں سے دیکھنے لگے۔
” علم ایک نقطہ ہے جسے جاہلوں نے بڑھا دیا ہے۔” مجذوب فقیر اپنے لے میں بولا۔ الف تو بہت زیادہ ہے ۔ بات ایک نقطے میں تمام ہو چکی ہے۔
پیر سائیں، مجذوب فقیر کی بات سن کر تڑپے اور بیہوش ہو گئے۔
دور کہیں سے بلھے شاہ کی کافی گانے کی آواز آ رہی تھی۔ اک نقطے وچ گل مکدی اے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیر سائیں اور مجذوب دونوں ایک نقطے میں ڈھل گئے تھے۔
اس نقطے سے عجیب سکون بخشی روشنی پھوٹ رہی تھی۔
اور یہ روشنی میرے دل سے پھوٹ رہی تھی۔

تحریر: حیدر قریشی