ریلوے کی تباہی کا ذمہ دار این ایل سی ہے

 

ghulam ahmad bilour

ghulam ahmad bilour

پاکستان کے ریلوے کے وفاقی وزیر حاجی غلام احمد بلور نے کہا ہے کہ ریلوے کا بیڑہ غرق کرنے میں فوج کے ٹرانسپورٹ کے ادارے نیشنل لاجسٹک سیل یعنی این ایل سی کا بڑا ہاتھ ہے۔

بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پہلے یہ طے تھا کہ اڑسٹھ فیصد کارگو ریلوے اٹھاتی تھی اور اب صرف اٹھائیس فیصد رہ گیا ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں ٹرک کے ذریعے مال لے جانے پر پابندی ہے کیونکہ ایک صوبے سے دوسرے صوبے تک مال ریلوے پہنچاتی ہے۔

جب ان سے پوچھا کہ ریلوے کی تباہی میں کرپشن اور بد انتظامی کا بھی بڑا ہاتھ ہے تو انہوں نے کہا کہ  کرپشن دنیا بھر میں ہے۔ ان کے بقول امریکہ، روس اور انڈیا سمیت سب جگہ ہے لیکن ان کی کوشش ہے کہ اسے کم کیا جائے۔ جب انہیں بتایا کہ آڈیٹر جنرل کی حالیہ رپورٹ میں ریلوے میں پونے آٹھ ارب روپے کی خورد برد کی نشاندہی کی گئی ہے تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی ہے اور تیرہ سو سے زائد ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ جب ہم نے پاکستان توڑا (بنگلادیش بنا) اس وقت ریلوے کے پاس ایک ہزار لوکو موٹوز (ریل کے انجن) تھے اور اب ایک سو سینتالیس ہیں۔ ہم نے موٹر وے بنایا لیکن انڈیا نے کوئی موٹر وے نہیں بنایا۔

بھارت میں ریلوے کے پاس آٹھ ہزار سے زائد انجن ہیں جبکہ پاکستان کے پاس ڈیڑھ سو بھی نہیں۔ بھارت میں دلی سٹیشن سے چودہ ہزار سے زائد ریل گاڑیاں آتی جاتی ہیں لیکن کوئی تاخیر نہیں ہوتی جبکہ پاکستان میں شاید ہی کوئی ٹرین وقت پر ہوتی ہے۔
انہوں نے اپنے بھارت کے ایک دورے کے بارے میں بتایا کہ دلی میں ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان اور ہندوستان کے ریلوے میں انہوں سفر کیا کون سی بہتر ہے؟۔ تو میں نے جواب گول کرتے ہوئے انہیں کہا کہ دونوں ممالک میں ریل کی سپیڈ ایک سو بیس کلومیٹر ہے جبکہ چین، جو دو سال بعد آزاد ہوا واہاں ساڑھے تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ والی ٹرین ہے اور چین ہم دونوں سے آگے نکل چکا ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنما اور وفاقی وزیر نے کہا کہ وزارت دفاع ریلوے کی ڈیفالٹر ہے اور کئی شہروں میں ریلوے کی زمین فوج کے پاس ہے۔ ان کے مطابق سیالکوٹ میں چار سو ایکڑ سے زائد زمین فوج کے زیر استعمال ہے۔ لیکن انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ فوج دفاعی مقصد کے لیے ریلوے کی زمین حاصل کرکے تجارتی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرتی۔ ان کے بقول اگر ایسا ہے تو وہ ان کے علم میں نہیں ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ بھارت میں ریلوے کے پاس آٹھ ہزار سے زائد انجن ہیں جبکہ پاکستان کے پاس ڈیڑھ سو بھی نہیں۔ ان کے بقول بھارت میں دلی سٹیشن سے چودہ ہزار سے زائد ریل گاڑیاں آتی جاتی ہیں لیکن کوئی تاخیر نہیں ہوتی۔ جبکہ پاکستان میں شاید ہی کوئی ٹرین وقت پر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو برس قبل صدر آصف علی زرداری مداخلت نہ کرتے تو ریلوے ایک سال پہلے بند ہوچکی ہوتی۔

ان کے بقول بیوروکریسی نے نئے ریلوے انجن خریدنے سمیت سات منصوبوں کے لیے جو پیسے منظور کیے ہیں اس سے موجودہ حکومت کے دور میں کوئی بہتری نہیں آسکتی بلکہ آنے والی حکومت کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ یا نیب سابق جرنیل (لیفٹیننٹ جنرل جاوید اشرف قاضی) کے دور میں چین سے خریدی گئی انسٹھ انجنوں کے معاملیکی جانچ کرے؟ اس وقت ایک جرنیل وزیر دوسرا سیکریٹری اور تیسرا جنرل مینیجر تھے۔۔ یہ میرا کام نہیں کہ میں ان کے خلاف شکایت کروں۔

غلام احمد بلور سے انٹرویو میں ریلوے کے علاوہ سیاسی معاملات پر بھی بات ہوئی اور انہوں نے حکومت اور عدلیہ میں تنا کے بارے میں کہا کہ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس نے مشرف کے عبوری آئینی حکم پی سی او کے تحت حلف اٹھایا اور انہیں فوجی وردی میں آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیا جبکہ پاکستان کے پہلے متفقہ طور پر منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیا۔

کراچی، پشاور، باجوڑ، سوات اور دیگر جگہوں پر ڈرون حملے کیوں نہیں ہو رہے ہیں۔ آپ ڈرون حملوں کی وجہ ختم کریں تو بنا مطالبے حملے بند ہوجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے بارے میں تاریخ لکھی جا رہی ہے اور اس بات کا فیصلہ بھی تاریخ کرے گی کہ موجودہ عدلیہ نے انصاف کیا یا نہیں۔ انہوں نے مثال دی کہ جسٹس منیر کو کس حیثیت میں یاد کیا جاتا ہے؟ یہی سپریم کورٹ چار فوجی جرنیلوں کی بغاوتوں کو آئینی تحفظ دے چکی ہے۔ انہوں نے یوسف رضا گیلانی کے مقدمے کی مثال دی اور کہا کہ ایک ہی جرم میں سات رکنی بینچ کے پختون جج نے انہیں چونتیس سیکنڈ کی سزا دی جبکہ ایک پنجابی جج (چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری) نے انہیں ہٹا دیا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد آئین اس لیے نہیں بنایا گیا کہ اگر الیکشن ہوئے تو بنگالی اقتدار میں آجائیں گے۔ بنگال کے مقابلے میں ون یونٹ بنا کر گریٹر پنجاب بنایا گیا جسے مغربی پاکستان کا نام دیا گیا۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک سمیت ایسے تمام گروہوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے جو بھی انتشار میں ملوث ہیں۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ ڈرون حملے صرف وزیرستان میں کیوں ہو رہے ہیں؟ انہوں نے خود ہی جواب دیا کہ کچھ وہاں گڑ بڑ ہو رہی ہے تو ڈرون حملے ہو رہے ہیں نا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہیں لیکن وہ پوچھتے ہیں کہ کراچی، پشاور، باجوڑ، سوات اور دیگر جگہوں پر ڈرون حملے کیوں نہیں ہو رہے ہیں۔ آپ ڈرون حملوں کی وجہ ختم کریں تو بنا مطالبے حملے بند ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا طالبان کے انہوں نے سوات میں مطالبے مان لیے لیکن انہوں نے خلاف ورزی کی، کیونکہ وہ بندوق کے زور پر اقتدار چاہتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں غلام احمد بلور نے کہا کہ ہم نے میاں نواز شریف سے اتحاد کیا تو مایوسی ہوئی۔ لیکن پیپلز پارٹی نے تمام مطالبے مان لیے ہم خوش ہیں اور آئندہ بھی ان سے اتحاد رہے گا۔