سپریم کورٹ (جیوڈیسک) سپریم کورٹ میں رینٹل پاور کیس کی سماعت شروع ہو گئی ہے ۔ چیئرمین نیب نے رینٹل پاور کیس میں وزیر اعظم کے خلاف ریفرنس کوناقص قرار دے دیا ہے جبکہ چیف جسٹس نے ملزمان کا تفتیشی ریکارڈ طلب کر لیا۔ ادھر چیف جسٹس کہتے ہیں ریفرنس ٹھوس نہیں ہے، نیب کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔
مقدمے کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا ابھی تک چالان پیش کیوں نہیں ہوئے ، گرفتاریاں کیوں نہیں ہوئیں وضاحت کریں۔ فیصلہ مارچ دو ہزار بارہ میں آیا اب تک عمل نہیں ہوا۔ عدالت کا مقصد فیصلے پرعملدر آمد کرانا ہے۔ عدالت نے صرف وزیر اعظم کے لئے نہیں بلکہ تمام ملزمان کے لئے حکم جاری کیا تھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا فیصلے میں محتاط زبان استعمال کی تاکہ کسی کا حق متاثر نہ ہو اور نہ ہی کسی کو مجرم ٹھہرایا۔ فیصلے میں لکھا ہے کہ بادی النظر میں فلاں فلاں شخص کے ملوث ہونے کا امکان ہے۔کے کے آغا فیصلے میں کسی کو بھی حتمی طور پر مجرم نہیں ٹھہرایا گیا۔ کے کے آغا ہمارے فیصلے کی روشنی میں ہونے والی تفتیش کی 2 رپورٹوں پر حالیہ حکم جاری کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس کوہر کسی کی الگ الگ رپورٹ دینے کو کہا تھا تاکہ انفرادی ذمہ داری سامنے آئے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کیس میں کچھ ایسے لوگ بھی ملوث ہیں جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں جبکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قانون سے کوئی بالا تر نہیں۔ عملدرآمد کے لئے توہین عدالت کا نوٹس دینا مشکل کام ہے۔اگر آپ آج دستاویزات اور ریکارڈ پیش کریں تو ہم باقی کے مقدمات ملتوی کر دیں گے۔ سپریم کورٹ میں رینٹل پاور کیس کی سماعت شروع ہوگئی ہے ۔ چیئرمین نیب نے رینٹل پاور کیس میں وزیر اعظم کے خلاف ریفرنس کوناقص قرار دے دیا ہے جبکہ چیف جسٹس نے ملزمان کا تفتیشی ریکارڈ طلب کرلیا۔ادھر چیف جسٹس کہتے ہیں ریفرنس ٹھوس نہیں ہے، نیب کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔
مقدمے کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا ابھی تک چالان پیش کیوں نہیں ہوئے ،گرفتاریاں کیوں نہیں ہوئیں وضاحت کریں۔فیصلہ مارچ دو ہزار بارہ میں آیا اب تک عمل نہیں ہوا۔ عدالت کامقصد فیصلے پرعملدر آمد کرانا ہے۔عدالت نے صرف وزیر اعظم کے لئے نہیں بلکہ تمام ملزمان کے لئے حکم جاری کیا تھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا فیصلے میں محتاط زبان استعمال کی تاکہ کسی کا حق متاثر نہ ہو اور نہ ہی کسی کو مجرم ٹھہرایا۔ فیصلے میں لکھا ہے کہ بادی النظر میں فلاں فلاں شخص کے ملوث ہونے کا امکان ہے۔کے کے آغا فیصلے میں کسی کو بھی حتمی طور پر مجرم نہیں ٹھہرایا گیا۔ کے کے آغا ہمارے فیصلے کی روشنی میں ہونے والی تفتیش کی 2 رپورٹوں پر حالیہ حکم جاری کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس کوہر کسی کی الگ الگ رپورٹ دینے کو کہا تھا تاکہ انفرادی ذمہ داری سامنے آئے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کیس میں کچھ ایسے لوگ بھی ملوث ہیں جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں جبکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قانون سے کوئی بالا تر نہیں۔ عملدرآمد کے لئے توہین عدالت کا نوٹس دینا مشکل کام ہے۔اگر آپ آج دستاویزات اور ریکارڈ پیش کریں تو ہم باقی کے مقدمات ملتوی کر دیں گے۔