زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھو

imtiaz ali shakir

imtiaz ali shakir

ہمیشہ سے یہی کہا جاتا رہا ہے کہ جب زیادہ لوگو ں کی زبان سے ایک ہی بات بار بار نکلے تو وہ نقارہ خدا ہوتی ہے۔ آجکل بھی کچھ ا یسا ہی ہو رہا ہے جسے دیکھو وہی مہنگائی، بیروزگاری، غربت و بھوک افلاس، بجلی گیس اورسی این جی کی قلت و لوڈ شیڈنگ ،کرپشن،رشوت و لوٹ مار نا انصافی اور دہشت گردی و بم دھماکوںکی اموات اور قتل و غارت سے انتہائی تنگی کی حالت میںہے اور صبح و شام انہی کا رونا روتے دکھائی دیتا ہے جس کی ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔اگر ہم غور کریںتو پتہ چلتا ہے کہ یہ نقارہ خدا ہی توہے جو لوگ اپنے حکمرانوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن حکمران اس بات کو نہیں سمجھ رہے کہ زبان خلق نقارہ خدا ہوا کرتی ہے ۔ اس کائنات کی تخلیق کے ساتھ فنا وبقا کا سلسلہ شروع ہو گیا جو قیامت تک جاری وسار ی رہے گا کوئی بھی انسان اللہ تعالیٰ کے اس نظام میںکمی بیشی کا متحمل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کسی بھی طرح سے اس نظام یعنی نظام قدرت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے مگر ہاں اس کائنات پر بسنے والی مخلوق کے ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے طرز زندگی میں تھوڑی بہت تبدیلی ضرور لائی جا سکتی ہے۔ ہر دور میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور ہو تی رہی ہے اور اس تبدیلی کا مقصد طرز زندگی کے معیار میںبہتری لانا رہا ہے مگر آج صورت حال یہ ہے کہ اس بہتری کے باو جودانسان سمیت باقی مخلوق اپنے بہتر کردہ ماحول میںرہتے ہوئے بھی اس قدرتنگی ،پریشانی،اور بے بسی کا شکار ہیں کہ بے خیالی اور بد حواسی ان کے گلے کا ہار بن چکی ہے اللہ تعالی کی یہ پیدا کردہ مخلوق اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم کے خلاف واویلہ مچائے ہوئے ہے لیکن جن صاحبان کواللہ تعالی نے انکی پریشانی کو دور کرنے کی قدرت دے رکھی ہے ان صاحبان قدرت کے کان پر جوں تک رینگتی دیکھائی نہیں دیتی۔ اور جوںرینگ بھی کیسے سکتی ہے  ان کو تو اس بات کا احساس تک نہیں ہے کہ اگراللہ تعالی نے ا ن کو یہ اختیارات دے رکھے ہیں توواپس بھی لے سکتا ہے اور ان اختیارات کے غلط اور صحیح استعمال کے لیے جوابدہ بھی ہوناپڑے گا۔وہ اس بات سے بالاتر ہوکران اختیارات کوہمیشہ کے لیے اپنے قابو میں رکھنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔
آج ہر شعبہ زندگی کا نظام تہس نہس ہورہا ہے۔ہمارے ملک کا ریلوے نظام سب سے اچھا تھا مگر آج نہ صرف ریلوے نظام بلکہ ریلوے ملازمین بھی بدحالی کا شکار ہیں۔اور بڑی حد تک ریلوے ملازمین بھی محکمہ ریلوے کی بدحالی کے ذمہ دار ہیں کیونکہ اگر یہ ایمانداری سے کام کرتے نہ خودادارے کو لوٹتے اور نہ دوسروں کو لوٹ مار کرنے دیتے تو آج اس برے وقت کا منہ نہ دیکھنا پڑتا ۔مگر ایسا نہ ہو سکا اور۔وزیروں۔آفیسروںاور چھوٹے ۔بڑے ملازمین سب نے ہی ریلوے کو لوٹا اور ریلوے کا بیڑا غرق کردیا اور آج چھوٹے ملازمین انتہائی کمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں پھر بھی کوئی ان کا پرسان حال دیکھائی نہیںدیتا۔شعبہ صحت کا حال اگر ماحظہ کیا جائے تو ہسپتالوں میں کم از کم دو  یا تین مریضوں کے حصے میں ایک بیڈ آتا ہے جس پر اگرسکون نہ بھی آئے تو سکون سے ہی لیٹناچاہے کیونکہ ڈاکٹرحضرات بھی مریض کا حال دیکھ کر نہیں بلکہ اپنے دل کا حال دیکھ کرمعائنہ کرنے آتے ہیں پھردوائی کی پرچی دی جاتی ہے اگر دوا اندر سے ملنی ہو تو دس دس چکر لگا نے پڑتے ہیںاگر باہر سے لینی ہو تو مہینے بھر کی کمائی رفو چکر ہوجاتی ہے ۔علاج  و معالجہ کے باقی معاملات کی صورت حال کچھ ایسی ہی  ایسے میںمریض اگر جسمانی طور پر ٹھیک ہوجاتا ہے تو ذہنی طور پر بیمار۔ ہسپتالوںکو اگر ذرا غور سے دیکھا جائے توپتہ چلتا  ہے کہ غریبوںکو بیمار ہونے کا تو قطعی طور پر حق حاصل نہیں ہے۔تعلیمی اداروں میںدیکھا جائے تو بہت سے مسائل سامنے آتے ہیں۔ بہت سے اسکول صرف کاغذی طور پر چلتے ہیں یعنی محکمہ تعلیم کی فائلوں میںان اسکولوں کانام ملازمین کے نام۔اساتذہ اور طالب علموںکے ناموںکے ساتھ ساتھ اسکول کا حدود اربہ تک درج ہوتا ہے اورایسے اسکولوں کا عملہ تنخواہ تووقت پر لیتا ہے گمر اسے کبھی بھی کام نہیں کرنا پڑتا ۔قارئین اگر ان باتوں پرذرہ سا غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ صرف حکمران ہی کرپٹ نہیں ہیں بلکہ ہم عوام بھی  حکمرانوں کی کرپشن میں برابر کے شریک ہیں ۔ ان اسکولوں کی عمارتوں کی مرمت اور توسیع کی غرض سے ملکی خزانے سے بڑی بڑی رقوم بھی نکالی جاتی ہیں مگر حقییقت میں ان اسکولوں کا کہیں نام ونشان تک نہیں ہوتا ہے۔
ایسے اسکولوں میں جن کا کہیں وجود نہیں ان میں روزانہ اساتذہ پڑھاتے ہیں اور طالب علم بھی پڑھتے ہیں مگر صرف سرکاری فائلوں میں۔ دوسری طرف سرکاری ا سکولوں میں چونکہ فیس پرائیویٹ سکولوں کی نسبت کم ہوتی ہے اس لیے زیادہ تربچے سرکاری سکولوں میں داخل ہوتے ہیںکیونکہ ہماری آبادی میں اکژیت غریب ہے۔سرکاری اسکول ایسے ہیں جیسے آٹے میں نمک کیونکہ جہاںسو یا سو سے زیادہ گائوں ہوتے ہیںوہاں دو سے تین ہائی اسکول ہوتے ہیںپھران اسکولوں میںطالب علم زیادہ اور اساتذہ کی تعداد کم ہوتی ہے اور عمارت بھی چھوٹی ہوتی ہے۔اگرکسی گائوں کا ایک ہزار بچہ ا سکول جانے کے قابل ہے تو وہاں کے اسکول میںگنجائش صرف دو سے تین سو بچوں کی ہوتی ہے اس طرح باقی سات سو بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیںاور پھر جو بچے داخل ہوجاتے ہیں وہ تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے اوراساتذہ کی توجہ کم ہونے کی وجہ سے تعلیم سے پوری طرح بہرہ مند نہیں ہو پاتے ان اسکولوں میں اقلیتی نصاب رائج ہیںجسے پڑھ کر بھی بچے باشعور نہیں بن پاتے بلکہ کنوئیں کے مینڈک ہی رہتے ہیں۔ایسے میں کیسے بن پا ئے گا پڑالکھا پاکستان۔نہ صرف سرکاری بلکہ نجی اسکول بھی اس سے بد تر مسائل سے اٹے پڑے ہیں۔ ایسے حالات میں جہاں دو وقت کی روٹی نہ ملنے سے جسم نڈھال ہے تو مناسب اور اچھی تعلیم نہ ملنے سے روح بھی بے تاب ہے لہذاجسم اور روح دونوں ہی اچھی پرورش سے محروم ہوئے بیٹھے ہیں۔  دیگر مسائل کے علاوہ بھی پرسوزمسائل سے انسان دو چارہے جن میںڈرون حملے سب سے نمایاںہیں۔
ڈرون حملے دہشت گردی کے نام پر رچایا جانے وا لا ایسا ڈرامہ ہے جس میں گزشتہ کئی سالوں سے بے وجہ ہزاروں نہتے اور معصوم لوگوں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں کو بے موت مارا جا چکاہے او ر ماراجار ہا ہے پھر بھی تا حال یہ ڈرامہ جاری ہے موت کا آنابر حق ہے مگر زندگی کی جوچار سانسیںہوںوہ بھی اسی سوچ اور خوف میں گزرجائیں کہ نجانے کب پھینکے جانے والے بارود سے جسم ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جائے کیا کسی طرح بھی موت سے کم ہے اور کسی کوبے قصورموت کے گھاٹ اتار دینا کیا درندگی نہیں اور پھر کیا یہ مخلوق خدا کی تذلیل نہیں ۔ اور جو لوگ طاقت رکھتے ہوئے بھی اس درندگی کو نہیں روک رہے کیا وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں۔اور کیا یہ بات کسی بڑے مسئلے سے کم ہے کہ پا کستان جو پہلی اسلامی ا یٹمی طاقت ہے اس سے تواسلام اور پاکستان کو استحکام ملنا چاہیے تھا ۔ روشن مستقبل ملنا تھا لیکن یہ بات قابل اعزاز ہونے کی بجائے قابل مذمت بن گئی اس کے لوگوں کے لیے یہ بات قابل فخر ہونے کی بجائے قابل گرفت بن گئی اور وہ ترقی کی منازل طے کرنے کی بجائے پستی کی طرف گئے اس بات سے انہیں کیاملا  بیروزگاری  غربت  بھوک افلاس مہنگائی لوڈ شیڈنگ کرپشن حتی کہ ان کی سلامتی اور خود مختاری تک مجروع کی گئی۔
پاکستان اور اسلام کی ترقی کا ابھرتا ہوا سر کچلنے کے لیے پس پردہ کئی دشمنوں کے ہاتھ آگے بڑھے ہوئے ہیںاور ہم ان ہاتھو ں کو کا ٹ کر پھینک دینے کی بجائے دوست سمجھ کر سپورٹ کرتے جارہے ہیں اور یہ ہاتھ ظلم و ستم کی انتہاکی تمام حدیں عبور کرتے جارہے ہیں  ابھی وقت ہے کہ ہم ان تمام تر مسائل کی طرف متوجہ ہوکر ان کا سلوشن ڈھونڈنے کے لیے سر گرم عمل ہو جائیںجو مخلوق خدا کو در پیش ہیں اور جن کا وہ صبح و شام رونا رو رہے ہیںکیونکہ زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے جب نقارہ خدا بج جائے تو پھر ہمیں بھی خوب اچھی طرح غورو فکر کرلینا چاہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی دنیا سنوارنے کی فکر میں اپنی عاقبت بھی خراب کر بیٹھیںاور پھر نہ تودنیا رہے اور نہ ہی آخرت۔
تحریر:  امتیاز علی شاکر