سرہیرلڈولسن کا کہنا ہے کہ ”سیاست میں ہر ہفتہ ایک اہم ہفتہ ہوتاہے”جس میں کچھ بھی ہوسکتاہے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کیا کچھ ہوجائے جس کے پکے شواہدہماری موجودہ ملکی سیاست موجودہیں اور اگر ہم سیاست کی صاف سُتھری اورحقیقی تعریف دیکھناچاہیں تویہ بے نظیر بھٹو شہید کے اِن الفاظ میںہمارے سامنے آتی ہے کہ”سیاست کی بڑی سنجیدہ اور دُور رس ذمہ داریاں ہوتی ہیںسیاست قوم کے وجودمیں اِس کے حیا کی بنیاد ہوتی ہے” مگرافسوس ہے کہ ہمارے حکمران شاید محترمہ کے اِس قول کو سمجھ نہیں پائے ہیں تب ہی تواِنہوں نے سیاست کو کچھ اور رنگ میں ڈھال کر پیش کیاہے اور ہم اگر سیاست کی مزید اور اچھی تعریف تلاش کریں تو ہمیں گوئٹے کا سیاست سے متعلق کہا گیا یہ جملہ بھی ملے گاکہ”سیاست اِنسان کی آسمانی سرگرمی ہے جس سے لاکھوں اِنسانوں کی زندگیاں اور تقدیریں وابستہ ہوتی ہیں” ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اَب اِس کے بعد سیاست کے طالبعلم کے لئے اِس سے آسان تعریف ہو ہی نہیں سکتی ہے جس طرح گوئٹے نے اپنے اِس جملے میںسیاست اور اِنسان کا جو رشتہ اور وسیلہ بیان کردیاہے وہ سمجھنے والوں کے لئے کافی ہے مگر افسوس ہے کہ ہمارے یہاں ایسانہیں ہورہاہے اِس کی ایک وجہ جو ہم سمجھ پائے ہیں وہ سٹیونسن کے اِس قول سے واضح ہوجاتی ہے کہ” لگتاہے کہ سیاست کو ایک ایساپیشہ بنادیاگیاہے کہ جس میں کسی قابلیت و مہارت کی ضرورت نہیں”بس جس کا جس طرح جی چاہئے وہ سیاست کی تمام اچھی تعریفوں سے مبراہوکر اِس میدان میں قدم رکھے اور اپنی سیاست شروع کردے۔
اَب جیسے کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں نے ہرمسئلے کا ایک حل عام انتخابات سے قبل اپنے اَنہونے اقدامات کرنے جیسی حکمتِ عملی میں ڈھونڈنکالنے میں ہی اپنی عافیت جان لی ہے یہ یقینا اِن کی سیاسی بصیرت ہوگی جِسے ایک عام اور خاص پاکستانی بھی سمجھنے سے قاصر ہے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عام انتخابات سے قبل بجلی بحران اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ، اور عام انتخابات ہی سے قبل بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے عوامی اور ملکی مسائل سے چھٹکارادحاصل کرنے کے بہانے حکمرانوں نے عام انتخابات موخر کرنے کی کوئی نئی منصوبہ بندی تیار کرررکھی ہے اَب جہاں اِن حکومتی اقدامات سے ایک عام پاکستانی کے ذہن میں کس قسم کے وسوسے اور خدشات جنم لے رہے ہیںاِن سے یقینا ہمارے موجودہ حکمران بھی خوب واقف ہوں گے…؟مگراِس پر ہم یہاں کچھ باتیں ایسی ضرورکرناچاہیں گے جن میں وہ تمام چیزیں پوشیدہ ہیں جنہیں اگرہم یہاں لکھنے پہ آتے تو کئی صفحات کالے کردیتے مگر پھر بھی ہماری تشنہ لبی باقی رہتی اورہم اپنی بات اُس طرح نہیں کہہ پاتے جس طرح ہم اختصار کا سہارالیتے ہوئے اگلی سطور میں بیان کرنے والے ہیں سو اپنے اردگرد کے بے حس ماحول کو دیکھتے ہوئے اور حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اداروں کی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنے کے حوالے سے ہم یہاں اپنی بات کہنے اور آپ کو سمجھانے کے خاطر صرف یہ کہنے پر اکتفاکررہے ہیں۔
جیساکہ کہا جاتا ہے کہ قوموں کی ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ اِن میں ایسے افرادہرزمانے می ںموجودہ رہے ہیں جنہیںجب کچھ کہناچاہئے وہ چپ رہتے ہیں اور جنہیں خاموش رہناچاہئے وہ بے تول بے مول بولتے ہی رہتے ہیںاور اِنہی کی طرح خاص طور پر ہمارے یہاں توہمیشہ سے ہی ایسے ادارے بھی موجودرہے ہیں جنہیںجب کچھ کرناچاہئے تو وہ طرح طرح کے مخمصوں کا شکار رہے اورمصالحت پسندی کے لبادے میں اپنامنہ ڈالے پڑے رہے ہیں اِس لئے اشخاص اور اداروں کے قول اور کردار کی وجہ سے قومیں تذذب اور انتشار کا شکار ہوجاتی ہیں جیسی اِن دنوں ہماری قوم بھی ہوچکی ہے۔
یعنی ایسے میں اَب کہنے والے تویہ تک بھی کہتے ہیں کہ وقت نکل جاتے ہیں مگر باتیں اور کارنامے رہ جاتے ہیں اِس پس منظرمیں تو ہمارے معاشرے اور ماحول میں ایک یہ بات بھی باکثرت نظرآنے لگی ہے کہ جو لوگ کم سوچتے ہیں اتفاق سے وہ ہی سب سے زیادہ بولتے ہیں معاف کیجئے گا یہاں ہمیں یہ کہنے دیجئے کہ مندرجہ بالا تمام باتوں کا تجربہ ہمیں اِس حکومت ہی میں سب سے زیادہ ہواہے حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ” میں اپنی اُمت کے بارے میں اُن منافقوں سے بہت ڈرتاہوں جو چالاک اور چرب زبان ہیں’۔
load shedding
اَب ایسے میں یہاں ہم واضح اور دوٹوک الفاظ میں یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ ہم بلدیاتی انتخابات اور بجلی بحران سمیت لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے قطعاََ مخالف تو نہیں ہیںمگرہمیں گلہ تواِس بات کا ہے کہ اگرحکومت کو بلدیاتی انتخابات اور لوڈشیڈنگ جیسے مسائل کرانے ہی تھے تو اِسے یہ عمل بہت پہلے ہی کردیناچاہئے تھااَب اِن قابلِ تعریف اور لائق تحسین اعمال کو اِس وقت کیوں پائیہ تکمیل تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کی گئی جب ہماری یہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے قریب ترہے بہرحال…!اَب دیکھنا یہ ہے کہ ضلعی حکومتی نظام آئندہ کے پانچ، چھ ماہ جو اِسے ملتے ہیں اپنے اِس مختصر عرصے میں کیایہ اپنے اُن منصوبوں اور نئے شروع کئے گئے منصوبوں کو مکمل کرپائے گی جو پچھلے کئی سالوں سے التوامیں پڑے ہیں۔
اِس حکومتی اقدم سے متعلق بھلے سے کوئی کچھ بھی کہے مگر ہم اِس حکومتی اقدم کی لاکھ مخالفت کے بعد بھی اتناضرور کہیں گے کہ چلو دیرآیددرست آید…دیکھ لیتے ہیں مختصر عرصے میں یہ نظام کیا گل کھلائے گا…؟اور اِسی طرح جنرل الیکشن سے پہلے لوڈشیڈنگ کا کتنامسئلہ حل ہوتاہے…؟؟مگرامیرجماعت اسلامی پاکستان سیدمنور حسن نے تو اسلام آباد ستارہ مارکیٹ کے سامنے عید ملن پارٹی کے ہزاروں شرکاء سے اپنے خطا ب کے دوران ساڑھے چار سال تک مصالحت پسندی کے کنوئیں میں اُندھے منہ پڑے رہنے والے حکمرانوں کے اِس طرزِ عمل اور اقدامات پرشدید تنقیدوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے کہاہے کہ حکومت نے بلدیاتی انتخابات قومی انتخابات سے قبل کرانے کا اعلان کرکے اِن خدشات کو صحیح ثابت کردیاہے اَب حکمران کسی بھی حال میں قومی انتخابات بروقت کرانے کا ارادہ نہیں اور وہ لیت و لعل سے کام لے رہے ہیںاِس پر ہماری ایک ادناسی رائے یہ ہے کہ ایساکچھ نہیں ہے جن سے متعلق عوام الناس میںخدشات پیداکئے جارہے ہیں یا ہورہے ہیںبلدیاتی انتخابات بھی ہوں گے اور عام انتخابات بھی اپنے وقتِ مقررہ پر ہی ہوں گے اور جیساکہ ساڑھے چارسال تک بجلی بحران اور لوڈشیڈنگ کے ستائے عوام کے لئے ہمارے موجودہ حکمران بالخصوص صدر زرداری کچھ نہیںکرسکے مگر اَب عام انتخابات سے قبل اِن میں عوامی خدمت کا جذبہ جگا ہے تو مان لیتے ہیں کہ اچھی بات ہے اورجیساکہ اِنہوں نے فرمادیاہے کہ ملک میںبلدیاتی انتخابات جنرل الیکشن سے پہلے ہونے چاہئیںاورانہوں نے اِسی طرح عام انتخابات سے قبل لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لئے بھی حکمت عملی تیار کی جانے کی بھی سخت ترین ہدایات جاری کردی ہیں تو پھرہمیں یہ سمجھ لیناچاہئے کہ سب کام اِسی طرح ہوجائیںگے جس طرح صدرزرداری نے کرنے اور جلدازجلد نمٹانے کا حکم دیا ہے کیوںکہ یہی تو صدرزرداری …زراور زمین والی سیاست کا حُسن ہے جو ہمارے ملک میں اپنے دورِ اقتدار میں ایسے ایسے کام کرنے کی صلاحیت رکھتے والے یکتا صدر ثابت ہوئے ہیں جن کی مثال نہ ماضی میں کہیں ملتی ہے اور نہ ہی مستقبل میں دور دور تک کہیں نظر آئے گی اِسی لئے تو ہم کہہ رہے ہیں کہ یہ ہمارے لئے ایک ایسے صدر ثابت ہو رہے ہیں۔ جن کے کئے گئے اقدامات اور قول ہمیں صدیوں یاد رہیں گے۔