زرداری صاحب کی جادو کی جپَپھی

kifait hussain

kifait hussain

کیا ہو ا تیرا وعدہ ،وہ قسم وہ ارادہ،ایم ۔کیو ۔ایم کی پھر سے حکومت میں شمولیت ، خیر یہ خبر کوئی چونکا دینے والی نہیں ہے کیونکہ ایسا تو ہونا ہی تھا ۔لیکن جس طرح سے یہ سب کچھ ہوا ہے اس بار  اِسطرح کی  توقع نہیں کی جارہی تھی اسے اب چاہے کوئی ۔ایم ۔کیو ۔ایم ۔ کی نادانی سمجھ لے یا پھر صدرآصف علی زرداری کے سیا سی دائو  پیچ جن کی زَد سے بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ صدر آصف علی زرداری کا ستارہ عروج پر ہے۔وہ شہنشاہِ پاکستان اور مقدر کا سکندر ہے ،قسمت کی دیوی اُس پر کچھ زیادہ ہی مہربان ہے۔ایم کیو۔ایم ۔ کی علحیدگی ، چوہدری بردران کی نارضگی ،شریف لیگ کے دھرنے ،عمرا ن خان کے کامیاب ترین جلسے ،بجلی کا شدید بُحران اور پھر امریکہ کی دھمکیاں ان ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہر طرف یہ چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ ،صدر آصف علی زرداری کی حکومت کے لیئے خطرے کی گھنٹی بج چُکی ہے آج یا پھر کل نئے ا لیکشن ہو تے نظر آرہے ہیں۔صدرآصف علی زرداری صاحب نے ایک بار پھر دانشوروں اور تجزیہ کاروں کو جھوٹا ثابت کیا اور منوایا اپنے آپکو کے آج پاکستان میں اُسکی ٹکر کا کوئی سیاستدان نہیں ہے ، شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسا جمہوری صدرہوگاجس نے اتنی تنقید کاسامنا کیا ہواجتنا کہ زرداری صاحب کو کرنا پڑاہے ،لیکن انھوں نے ہرتنقید کا سامنا نہایئت ہی دیدہ دلیری اور صبر کیساتھ کیا۔اب تو شک ہونے لگا ہے کہ زرداری صاحب کے پاس کوئی نہ کوئی ایسا منتر ضرور ہے کہ جسکے پھونکتے ہی وہ سب کچھ اپنے بس میں کرلیتے ہیں،شاید کوئی جادوٹونہ یا پھر ، انڈین فلم مُنا بھائی ۔ایم ۔بی۔بی ۔ایس والی جادو کی جپپھی ،آج اس ٹیکنالوجی کے دور میں جادوٹونے والی بات کرنا احمقانہ ہوگئی لیکن ،جادوکی جپپھی ،یہ  بات دل کو لگتی ہے ،، اور شاید ایسا ہی کچھ ہے ۔ جہاں وہ اپنی سیاسی برادری کوسیاسی اداکاروں کے خطاب سے  نواز چُکے ہیں وہیں خودبھی بنے ہوئے ہیں مُنا بھائی ، ایم ۔بی۔بی۔ایس ،لگے رہو ،،، زراداری صاحب آج کل تو بس آپ کی ہی جئے جئے کا ر ہے۔پیپلزپارٹی اور ایم۔کیو ۔ایم کا تنازعہ جتنی شدت اختیار کرگیا تھا اس سے لگتا نہیں تھا کہ اب اِن دونوں جماعتوں کا آپس میں کوئی سنگم ہوسکتاہے لیکن جب زرداری صاحب نے دیکھا کہ اب حالات حد سے زیادہ تجاوزکر رہے ہیںتو بس وہ پھر پہنچے لندن الطاف بھائی کے پاس اور دی الطاف بھائی کوجادو کی ایک جپھپی ، بس پھر حالات نے کھایا ایسا پلٹاکہ سب کچھ ویسے ہی ہوگیا جیسے کہ کبھی کچھ ہو ا ہی نہیں تھا ۔ایم ۔کیو ۔ایم ۔کی تما م رنجیشیں ،شکوے اور شکائیتیںدور ہوگئیں اور آج ، ایم ۔کیو۔ایم پھر سے حکومت کا حصہ ہے۔صدر آصف علی زرداری کی جادو کی جپھپی کا جادو صرف الطاف بھائی پر ہی نہیں چلابلکہ ،مولانا  فضل الرحمان  اور چوہدری شجاعت صاحب بھی اس سے نہ بچ سکے اور بول اُٹھے، مٹی پائو تے روٹی شوٹی کھائو۔زرداری صاحب دے لڑلگ جائو  ۔ خیر اب تو پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ(ق)،ایم ۔کیو۔ایم اورجمعیت عُلماء اسلام(فضل الرحمان )یہ تما م جما عتیں آنے والا الیکشن میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرواچکی ہیں، تو جنا ب یہ ہیں زرداری صاحب کی جادو کی جپھپی کے کمالات ۔اگر اس وقت پاکستانی عوام میں مقبو ل ترین سیاسی جماعتوں کا  ایک گراف بنایا جائے کہ نمبرون ،ٹواور تھری پر کونسی سیاسی جماعتیں ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلزپارٹی اب بھی نمبرون پر ہے اور نمبر ٹو  پر مسلم لیگ (ن)اور نمبر تین پر اب عمران خان کی تحریک انصاف کو کہا جاسکتا ہے کیونکہ پیچھلے چند مہینوں سے جسطرح تحریک انصاف عوام میں مقبول ہورہی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔اب سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کی تحریک انصاف میں شمولیت نے تمام سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے جس سے عمران خان کی پوزیشن اور زیادہ مظبوط ہو گئی ہے ۔ اسے عمران خان کی سیاست کے میدان میں پہلی سنچری سمجھ لیجئے اور یہ نیک شُگن ہے تحریک ِانصاف کے لیئے ، کوئی شک نہیں کہ ا س بار عمر ان خان سب مخالف سیاسی جماعتوں کو ٹف ٹائم دینے والے ہیں ، اُنکے گجرات اور فیصل آباد کے کامیاب ترین جلسوں نے تمام مخالفین کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ عمران خان کے لیے نمبر٣ ، ویسے ہی بڑالکی نمبر ہے، تیسرے نمبرسے ہمیں ١٩٩٢ کا وہ کرکٹ ورلڈکپ یاد آتا ہے جس میں عمران خان نے اپنے نمبر سے ہٹ کر ون ڈائون  یعنی تیسرے نمبر پر بیٹنگ کی اور پاکستانی  قوم کو کرکٹ ورلڈکپ جیت کر وہ تحفہ دیا جس پر آج بھی پوری قوم کوفخر ہے ۔ اب اگر وہ سیاست کے میدان میں بھی اپنے  پرفیکٹ یارکر مارنے میں کامیاب ہوجاتے ہیںتو ہو سکتا ہے کہ وہ ، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو کلین بولڈکردیں۔قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس بار سیاست کے میدان میں مقابلے بڑے سخت ہونے والے ہیںکیونکہ اگر ایک سیر ہے تو دوسرا سوا سیر۔جہاں اس بارتمام سیاسی جماعتوںکا کڑا امتحان ہوگاوہیں پرپاکستانی قوم پر بھی پریشر ضرور ہوگاکہ وہ کن لوگوں کا انتخاب کریں جو آگے چل کر اُن کی اُمیدوں پر پور اُتر سکیں،کیونکہ اگر اس بار بھی عوام نے پاکستان کے لیئے صحیح نُمایندوں کا انتخاب نہ کیاتو پھر عوام ہی پاکستان کی دُشمن ہوگی، پاکستان میں اب اتنی سکت نہیں کہ مزید کرپشن،قتل وغارت ، جعلسازی اورمُنافقت کو برداشت کر سکے،پاکستان کو ٹوٹنے سے اب پاکستان کی عوام نے ہی بچانا ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجئے کہ پاکستان کا مقدر اب پاکستان کی عوام کے ہاتھ میں ہے۔جیسے جیسے الیکشن قریب آتے جا رہے ہیںسیاسی اداکاروں کے ڈرامے بھی دلچسپ ہوتے جارہے ہیں۔پاکستانی قوم کا یہ فرض ہے کہ وہ  نقابوں کے پیچھے چُھپے ہوئے اصل چہروں کو بے نقاب کریں اور ایسے لوگوں کو ہی پاریلمنٹ میں لے کر آئیںجو صحیح معنوں میں عوام کے خادم بنیں صرف دکھاوے اور نام کے نہیں۔پاکستان آزادی کے ٦٥ویں سال میں داخل ہوچُکا ہے اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ان ٦٥ سالوں میں ، ٣٤سال آمریت نے پاکستان کی عوام پر راج کیا اور،٣١سال جمہوریت رہی ،لیکن جہوریت کے ان ٣١سالوں میں پاکستان کی صرف دو ہی سیاسی جماعتیں ایسی ہیںجو  اقتدار میں رہیں ،پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)،٣١سال کاعرصہ بہت ہوتا ہے کسی کو جانچنے اور پرکھنے کے لیئے ،آج پاکستان کو ضرورت ہے تبدیلی کی اور کسی تیسرے کو  موقع دینے کی،یہ زمینداری  ہے اب ہم عوام کی کہ ہم کسی تیسرے کو موقع دیتے ہیں یا پھر وہی آزمائے ہوئے چہروں کو پھر سے آزمانا ہے۔اگر پاکستان کی عوام واقع چاہتی ہے کہ اس بار تبدیلی آئے کوئی تیسری سیاسی جماعت یا پھر کوئی تیسرا چہرہ سامنے آئے تو پھر سوچ سمجھ کر اور پوری ایمانداری کیساتھ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں۔اس وقت تمام سیاسی جماعتیں اپنے جلسے جلسوں میں بڑھ چڑھ اپنی اپنی پارٹیزکے منشور پیش کر رہی ہیں،بجلی کی کمی کو پورا کرنے کا ،غربت کے خاتمے کا ،تعلیم عام کرنیکا ،بے روزگاری کو ختم کرنے کا ،وغیرہ وغیرہ،دیکھنا اب یہ ہے کہ اس بار کونسی سیاسی جماعت عوام کو اپنے شیشے میں اُتارنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے دھرنے ، تحریک ِانصاف کے انقلابی نعرے،ایم ۔کیو۔ایم کے جاگیردارنہ نظام کے خاتمے کے دعوے،یا پھر و ہی،  زرداری صاحب کی جادوکی جپھپی،،،،،،، تحریر:کفایت حسین(یو۔اے۔ای)