زرداری کی بصیرت اور بے نظیر کی جوتی

Najeem Shah

Najeem Shah

شاہ محمود قریشی ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں جن کا شمار محترمہ بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ مخدومینِ ملتان میں یوسف رضا گیلانی، جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی کا ملکی سیاست میں ایک اہم کردار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان تینوں مخدومین کی آپس میں دیرینہ سیاسی مقابلہ بازی چل رہی ہے ۔ مخدومینِ ملتان سید یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی ایک پارٹی میں موجود ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ اپنی باہمی مقابلہ بازی کے جوہر دکھاتے رہتے ہیں جبکہ تیسرے مخدومِ ملتان اب سیاسی پلیٹ فارم کے انتخاب کے معاملہ میں ثابت قدم ہو چکے ہیں مگر اس پلیٹ فارم پر وہ اپنے پارٹی قائدین کی بھی رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں۔گدی نشینی، مذہبی عنصر، مریدین کا حلقہ اِن مخدومینِ ملتان کی مقبولیت میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی دربار حضرت شاہ رکن عالم کے سجادہ نشین رہ چکے ہیں جبکہ مخدوم شاہ محمود قریشی موجودہ سجادہ نشین ہیں۔ اس گدی نشینی اور سندھی مریدین کے حلقے کی وجہ سے شاہ محمود قریشی کی مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ وزارت خارجہ کے بعد اب پارلیمان اور پیپلز پارٹی کی رکنیت سے مستعفی ہونیوالے مخدوم شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ صدر زرداری کی سیاسی بصیرت بے نظیر کی جوتی کے برابر بھی نہیں ہے۔ استعفیٰ لیا نہیں گیا بلکہ خود اپنی وزارت کو ملکی وقار پر قربان کیا جبکہ حکومتی اراکین کا مؤقف ہے کہ شاہ محمود قریشی کبھی بھی پیپلز پارٹی کیساتھ مخلص نہیں رہے۔ اُنہوں نے وزارت خارجہ کی بجائے وزارت پانی و بجلی لینے سے انکار کر دیا تھا اس لیئے آخری وقت میں اُن کی کرسی وزراء کی تقریب حلف برداری سے ہٹا دی گئی ۔ جس کے بعد اُنہوں نے سستی شہرت کے حصول کیلئے ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ اُٹھایا تاہم جب تک وہ وزیر خارجہ کے عہدے پر براجمان تھے اس ساری صورتحال پر خاموشی تماشائی بنے رہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق وزارتِ خارجہ سے مستعفی ہونے کے بعد شاہ محمود قریشی کے پاس تین آپشن موجود تھے۔ پہلا یہ کہ وہ پیپلز پارٹی کو خیرباد کہہ کر دوبارہ مسلم لیگ ن میں چلے جاتے، دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کے تمام ناراض اراکین کو ساتھ ملا کر ایک پریشر گروپ تشکیل دیتے جبکہ تیسرا راستہ وہی جو سابق صدر فاروق احمد خان لغاری مرحوم نے اپنایا تھا یعنی اپنی الگ پارٹی تشکیل دیتے۔ ان تینوں آپشنز میں سے کسی ایک پر بھی عملدرآمد نہ ہو سکا اور اب اطلاعات یہ موصول ہو رہی ہیں کہ وہ ستائیس نومبر کو باقاعدہ طور پر تحریک ِ انصاف میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی خاندانی سیاست اکثر اقتدار کے ایوانوں کے گرد ہی گھومتی رہی۔ اُن کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی پہلے ذوالفقار علی بھٹو کیساتھ رہے اور جب بھٹو کا اقتدار ختم ہوا تو وہ ضیاء الحق کیساتھ مل گئے۔ جنرل ضیاء کے زمانے میں وہ گورنر پنجاب بھی رہ چکے ہیں۔ خود مخدوم شاہ محمود قریشی پہلے محمد خان جونیجو کیساتھ رہے جبکہ جنرل ضیاء کی وفات کے بعد میاں نواز شریف کے ساتھی بن گئے۔ اس دوران وہ صوبائی وزیر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ مسلم لیگ جونیجو قائم ہونے کے بعد وہ دوبارہ اس میں شامل ہو گئے اور میاں منظور وٹو کی صوبائی کابینہ میں دوبارہ وزیر بنا دیئے گئے۔پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد وہ 1993ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے جبکہ بعد میں وفاقی کابینہ کے ممبر بن گئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں شاہ محمود قریشی ضلع ناظم ملتان رہے اور پھر 2002ء کے عام انتخابات میں وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر دوبارہ ایم این اے منتخب ہو گئے۔ ان انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی جانب سے مخدوم شاہ محمود قریشی کو وزیراعظم کا اُمیدوار نامزد کیا گیا لیکن وہ میر ظفر اللہ خان جمالی سے ہار گئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس عرصے کے دوران وہ آصف علی زرداری کو بھٹوثانی قرار دیتے رہے لیکن آج صدر زرداری کی سیاسی بصیرت اُن کی نظر میں محترمہ کی جوتی کے برابر بھی نہیں رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو ایک عوامی لیڈر تھیں اور پیپلز پارٹی بلاشبہ ایک عوامی پارٹی ہے جس کا کردار ملک کی سیاست میں آئندہ کئی دہائیوں تک مؤثر رہے گا جبکہ صدر زرداری اگر محترمہ کی طرح ایک کامیاب لیڈر نہیں بن سکے تو ایک کامیاب سیاست داں ضرور ثابت ہوئے ہیں اور اُنکے سیاسی تدبر اور بصیرت کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ بڑے بڑے سیاسی ماہر جو یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے تھے کہ زرداری حکومت سال ڈیڑھ کی مہمان ہے۔ کوئی بھی سیاسی پنڈت دو سال دینے کیلئے تیار نہیں ہوتا تھا کہ زرداری میں سیاست کو درکار بصیرت نہیں ہے لیکن صدر صاحب نے مفاہمتی سیاست کی ایسی بصیرت نکالی کہ اپوزیشن کو چِت کرکے رکھ دیا۔ وہی سیاسی پنڈت جو ڈیڑھ دو سال دینے کو تیار نہیں تھے اب پورے ٹرم کی بات کر رہے ہیں اور اب زرداری صاحب کو ماہر سیاست داں سمجھنے لگے ہیں۔ یہاں تک کہ ذوالفقار مرزا کی گھن گرج کے پیچھے بھی زرداری کی سیاست کو تلاش کر رہے ہیں۔ زرداری صاحب سے لاکھ اختلافات سہی مگر یہ ماننا پڑے گا کہ اُنہوں نے انتہائی سخت حالات کے دوران سیاسی اکھاڑے میں اپنے مخالفین کو بڑے پیار سے بارہا چِت کیا ہے۔پاکستان کی سیاست چونکہ شطرنج کا کھیل ہے اور سیاسی عامل بابا آصف زرداری نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اب بھی بھاری ہیں۔ وہ اتنے بُرے بھی نہیں ہیں جتنا مافیا نے اُن کے خلاف پروپیگنڈہ کر رکھا ہے۔  صدر زرداری نے اپنی تمام زندگی کا فلسفہ کتابِ مفاہمت میں سمو دیا ہے۔ وہ یہ کتاب سیاسی رہنمائوں کو پڑھواتے رہتے ہیں۔ میاں صاحب تو تین سال تک اس کتاب کے سحر میں ڈوبے رہے۔ اسی طرح یہ کتاب ایم کیو ایم، اے این پی اور جے یو آئی (ف) نے بھی پڑھی اور اب چودھری برادران بھی پڑھ رہے ہیں۔ طاقت میں آ جانے کے بعد سے لے کر اب تک زرداری صاحب نے بہت ہی سیاسی سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ مخدومینِ ملتان میں سے ایک مخدوم وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے سبب زرداری صاحب کے قریب ہیں۔ دوسرے مخدوم زرداری پارٹی کو خیرباد کہہ چکے ہیں اور اُن کی سیاسی بصیرت سے نالاں نظر آتے ہیں جبکہ تیسرے مخدوم زرداری صاحب کی سیاست کو پی ایچ ڈی سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں زرداری صاحب کا جادو موجودہ حکومت کے شروعات کے دنوں سے ہی بول رہا ہے۔ اُن کی قوتِ برداشت اور صبر و تحمل نے اس جادو میں ایک نئی روح پھونکی ہے۔ زرداری صاحب کی طبیعت میں خاموشی اور صبر جیسی چیز موجود ہے جو کہ پاکستان کے بہت سے سیاست دانوں میں نہیں ہے۔ میرے نزدیک وہ ایک کامیاب سیاست داں ضرور ہیں مگر محترمہ کی طرح کے لیڈر فی الحال نہیں بن سکے البتہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے اس مؤقف سے میں اتفاق نہیں کرتا کہ وہ سیاسی بصیرت سے عاری ہیں۔ یہی زرداری صاحب جب قصرِ صدارت پر فائز ہونے جا رہے تھے تو سیاسی مخالفین اُنہیں نیم پاگل قرار دیتے رہے اور آج وہی لوگ ان کی گنجلک سیاست کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ زرداری صاحب اگر پاکستان میں بڑھتی غربت، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کے ساتھ بڑھتا امریکی تسلط ختم کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر صحیح معنوں میں ایک انقلابی لیڈر بھی بن سکتے ہیں۔
تحریر : نجیم شاہ