زہریلا پانی … سنگین بحران

Poisonous Water

Poisonous Water

انسانی ضرورتوں میں صرف پانی ایک بنیادی مسئلہ ہے اور ہماری 72فیصد آبادی تا حال پینے کے صاف پانی سے محروم ہے جسکی وجہ سے سالانہ سینکڑوں بچے اور بڑے جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن جاتے ہیں ۔ اندرون سندھ میں زہریلے پانی کی وجہ سے گیسٹرو کی بیماری نے آج تک 134افراد کو ہلاک کر ڈالا جو کہ گذشتہ سالوں میں پیدا شدہ کسی بیماری کی وجہ سے ہلاکتوں کا ایک ریکارڈ ہے جو مریض جان بلب ہیں انکی تعداد 300سے بھی زائد ہے اور ہسپتالوں میں 1100سے زائد افراد اس بیماری کی وجہ سے آج تک داخل زیر علاج پڑے ہیں ۔ گھروں میں فلٹرڈ پانی مہیا کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے اگر ملک میں فلٹریشن پلانٹ فوری طور پر نہیں لگائے جاتے تو ہلاکتوں کا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جائیگا ۔ حکومتی بیانات سن سن کر لوگ اتنے زچ ہو چکے ہیں کہ اب انہیں وزیروں کی تمام باتیں ہی نا پائیدار محسوس ہوتی ہیں دیہاتوں اور قصبوں خصوصاً اندرون سندھ میں جوہڑوں کا پانی انسان اور حیوان اکٹھے پیتے ہیں پانی ہی قدرت کا وہ انمول تحفہ ہے جو انسانی بقاء کیلئے نا گزیر ہے۔ پانی حاصل کرنے کے ذرائع میں دریا، سمندر ، بارش ، جھیلیں ، قدرتی چشمے اور زیر زمین پانی کے ذخائر ہیں مگر پینے اور کھانا پکانے کیلئے ہلکا اور صاف پانی ہونا بہت ضروری ہے ۔ وگر نہ انسان آلودہ پانی کے استعمال سے مختلف قسم کی بیماریوں مثلاً ہیپا ٹائٹس ، اسہال ، قے ، ہیضہ اور گیسٹرو وغیرہ میں مبتلا ہو کر بسا اوقات اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں آلودہ پانی پینے سے ہر سال پاکستان میں لاکھوں بچے مر جاتے ہیں ۔ انسانی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے پانی کی آلودگی اور اسمیں موجود مختلف قسم کے جراثیم ختم کرنے کیلئے اس میں سے مختلف آمیزشوں کو ختم کیا جانا بہت ضروری ہے ۔ جسکے لیے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جاتے ہیں ۔ اس قسم کے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ بیسویں صدی کے آخر میں متعارف کرائے گئے جہاں انڈسٹری نے ترقی کی وہاں اسکے نتیجے میں لوگوں کی صحت کے حوالے سے انتہائی پیچیدگیاں پیدا ہو ئیںجن میں پینے کا صاف پانی سب سے بڑا مسئلہ ہے اس سلسلہ کا سب سے پہلا پلانٹ 1829ء میں ٹیمز نامی دریا پر لندن میں لگایا گیاجہاں پر لوگوں کو صاف پانی مہیا کرنے کے انتظامات کیے گئے1854ء میں لندن میں ہیضہ کے وبائی مرض پھیلنے سے ہزاروں جانیں ضائع ہو گئیں جس سے واٹر مینجمنٹ پلانٹس کی اہمیت کا بہت احساس اجاگر ہو ا اور یورپ اور امریکہ میں واٹر مینجمنٹ پلانٹ لگنے شروع ہو گئے ہیضے کے اس جان لیوا مرض سے خاص طور پر متحدہ ہندوستان میں 1898-1907میں تین لاکھ پچانوے ہزار اموات ہوئیں ۔ ویبرو ایک ایسا زہریلا بیکٹیریا ہے جو آلودہ پانی پینے سے منہ کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر نظام انہضام پر اثر انداز ہوکر اسے تباہ کر دیتا ہے اور دستوں اور قے کی صورت میں انسانی جسم سے وافر مقدار میں پانی کے اخراج سے بائی کاربونیٹس اور سوڈیم کی کمی واقع ہو جاتی ہے جس سے انسانی موت واقع ہو تی ہے ۔ ہمارے ملک میں اس سلسلہ میں عدم توجہی سے ہزاروں بچے ہلاک ہو جاتے ہیں جو کہ حکومتوں کی طرف سے عوام کیساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔ بعض کمپنیاں کھلے عام منرل واٹر کا لیبل لگا کر لوگوںکو دھوکا دیکر مارکیٹوں میں موت کے پروانے تقسیم کرنے کا باعث بن رہی ہیں صرف پانی ہی نہیں پانی کی جمالیاتی حیثیت بھی خاص اہمیت کی حامل ہے پانی کا رنگ اس کا ذائقہ اور اسکی بو انتہائی اہم ہیں پینے کا پانی تو شفاف بے بو بے رنگ اور بے ذائقہ ہونا چاہیے ہمارے ہاں اکثر پانی کا رنگ گدلا ، پیلاہٹ والا یا سنہری مائل ہوتا ہے جو کہ کائی اور دوسرے زہریلے کیمیکلز کی زیادتی کی وجہ سے ہوتا ہے جو کہ انسانی جان کیلئے انتہائی مضر ہے گلے سڑے ہوئے انڈوں کی طرح کی ایک خاص قسم کی سرانڈ ہائیڈروجن سلفائیڈ گیس کی وجہ سے آتی ہے جس کے پینے سے متلی اور قے شروع ہو جاتی ہے پینے کے پانی میں کاپر ، آئرن ، میگنیز ، کلورائیڈاور زنک کی زیادتی کی وجہ سے بیماریاں پھیلتی ہیں بعض نام نہاد کمپنیاں پیسے کمانے کے لالچ کی وجہ سے آلودہ پانی کی بوتلوں پر بڑے خوبصورت لیبل لگا کر عوامی زندگیوں سے کھیل رہی ہیں ملک بھر کے 75فیصد سے زائد لوگ لازماً کسی نہ کسی پیٹ کی بیماری میں مبتلا رہتے ہیں ۔ ملک کے کھانے پینے کی اشیاء پر کنٹرول کے اداروں میں موجود کرپٹ بیورو کریٹ انکے محافظ بنے ہوئے ہیں اور انہیں معیاری ہونے کا سر  ٹیفکیٹ عطا کر دیتے ہیں اس طرح سے بھاری رقوم رشوت دیکر جعلی کمپنیوں کو بندے مارنے کا لائسنس مل جاتا ہے ۔ ایسی نام نہاد کمپنیوں کو جعلی لائسنسوں کی الاٹ منٹ عوام میں بیماریاں تقسیم کرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں بعض کمپنیاں تو سٹینڈرڈ ائزڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی سے رجسٹرڈ ہی نہ ہیں جو رجسٹرڈ ہیں وہ اس ادارے کے معیار پر پورا نہیں اترتیں اس ادارے کو مہیا کیے گئے معیار کے سیمپل یہ کمپنیاں خود مہیا کرتی ہیں اور میل ملاپ اور پیسے کی چمک سے جعلی زہریلا پانی عوام الناس کو فروخت کیا جا رہا ہے ۔ اندرون خانہ ملی بھگت سے معاوضہ طے کرکے ایسے  سر  ٹیفکیٹ جاری کروایا جاتا ہے ۔ اس طرح سے یہ کمپنیاں غریب اور محنت کش مزدور پیشہ عوام کو غیر معیاری آلودہ اور جراثیم سے لبریز پانی پلا کر انہیں بیماری میں مبتلا کر رہی ہیں ۔ ہیضہ ، ہیپا ٹائٹس ، گیسٹرو کی بیماریوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور لوگ مو ت کی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں ۔ جو ادارے ان کمپنیوں کو انکے معیاری پانی ہونے کا سر  ٹیفکیٹ دیتے ہیں ان کا کسی طرح سے چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے کئی ٹریٹمنٹ پلانٹس کا تو وجود تک نہیں ہے اور جن ٹریٹمنٹ پلانٹس پر پانی تیار کیا جاتا ہے  اس سے وہ کمپنیاں بھی بدنام ہو رہی ہیں جو عوام کو معیاری پانی فراہم کر رہی ہیں بعض کمپنیاں تو ایسی بھی ہیں جو پانی کو بغیر عمل کثیف اور ٹریٹمنٹ  کے ڈائریکٹ نلکے سے بوتلیں بھر کر سیل کر دیتی ہیں اور یہ غیر معیاری اور مضر صحت پانی مختلف ناموں سے فروخت ہو رہا ہے دوسری طرف ضلعی حکومتیں اور کرپٹ لادین بیوروکریسی کے افراد کو اپنی جھنجھٹوں سے فرصت تک نہ ہے ۔ مکروہ اور دھوکے باز وں کا کالا دھندہ بند کیا جانا اشد ضروری ہے۔ منرل واٹر قدرتی چشموں ، آبشاروں اور جھیلوں کے پانی کو کہا جاتا ہے جس میں قدرتی طور پر مختلف قسم کی معدنیات مثلاً کیلشیم ، کاربونیٹ ، میگنیشیم ، سلفیٹ ، پوٹاشیم ، سوڈیم سلفیٹ اور مختلف قسم کی دھاتیںپانی میں حل شدہ موجودہوتی ہیں اور یہ پانی انسانی صحت کیلئے انتہائی مفید اور کار آمد ہوتا ہے جبکہ اگر مصنوعی طور پر منرل واٹر تیار کرنا ہو تو پہلے اس پانی کو باقاعدہ ٹریٹمنٹ کرکے صاف کیا جاتا ہے پھر اس میں کیلشم ، میگنیشیم ، پوٹاشیم ، سلفیٹ ، فلورائیڈ سوڈیم اور کلورائیڈ وغیرہ کی آمیزش کی جاتی ہے اور اس طرح اس پانی کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کرکے اس بات کی یقین دہانی کر لی جاتی ہے کہ یہ پانی واقعی انسانی صحت کیلئے مفید ہے اور اسے ان تمام مراحل سے گزار کر کرسٹل کلیئر کرکے بوتلوں میں بھرا جاتا ہے اور بعد میں سیل کر دیا جاتا ہے تا کہ کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہے ۔ سب سے پہلے منرل واٹر جنیوا کے ایک سنار جس کا نام جیکب شویپ تھا نے 1794ء میں اپنے دوستوں میں متعارف کروایا جو بہت مقبول ہوا اس طرح اس کا بزنس بڑھتا چلا گیا اور اس نے اس وقت کے انتہائی جدید پلانٹ پر اس پانی کو تیار کرکے بوتلوں میں بھر کر لندن کی مارکیٹ میں متعارف کروایا ۔ اس نے تین قسم کا پانی تیار کیا ۔ پہلی قسم کا پانی وہ تھا جسے میڈیکل میں استعمال کیا جاتا تھا، دوسری قسم کا پانی وہ تھا جو عام طور پر پینے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور تیسر ی قسم کا پانی گردوں کے مریضوں کو استعمال کروایا جاتا تھا۔ منرل واٹر اتنا مقبول ہو گیا کہ 1820ء میں منرل واٹر کی تیاری میں انتہائی جدید پلانٹس کا استعمال کیا جانے لگا اور اسطرح یہ پانی پوری دنیا میں صحت کیلئے میڈیکل کے طور پر بھی استعمال ہونے لگا ۔ پانی کو واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ میں ریت کی گہری تہہ سے گزارا جاتا ہے جس سے بہت سی کثافتیں صاف ہو جاتی ہیں یا پھر جدید پلانٹس میں پانی کی کثافتوں کو ایلومینیم سلفیٹ ، فیرس کلورائیڈ اور فیرس سلفیٹ کے ذریعے صاف کیا جاتا ہے اس طرح تمام کثافتیں اور پانی میں موجود جراثیم جم جاتے ہیں اور ایک ٹینک میں جمع ہو جاتے ہیں پھر پانی کو ریت کے ذریعے عمل کثیف کرکے اسے چھان لیا جاتا ہے اور اس آلودہ اور بھاری پانی کو عمل کثیف سے پہلے اور بعد میں کلورین یا بلیچنگ کے ذریعے صاف کرکے اسکی تمام کثافتیں دھولی جاتی ہیں اور وہ پانی جراثیم اور آلودگی سے پاک ہوجاتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان سٹینڈرڈائزڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول کے ادارے کو اب دقیانوسی طریقہ کار چھوڑ کر متعلقہ فیکٹری جسے یہ سر  ٹیفکیٹ جاری کرنا ہو اپنا نمائندہ بھیج کر وہاں پر موجود سٹاک سے سیمپل حاصل کرکے اسے سیل کرے اور پھر اسکی کوالٹی کا سر  ٹیفکیٹ جاری کرے اور عوام کو یقین دہانی کروائی جائے کہ یہ پانی واقعی اسکے معیار کے مطابق ہے ورنہ عوام کو بے وقوف نہ بنایا جائے ۔ اور جو لوگ منرل واٹر کے نام پر جراثیم زدہ اور آلودہ پانی پلا کر لوگوں میں موت فروخت کر رہے ہیں انکے خلاف سخت سے سخت کاروائی عمل میں لائی جائے اور اسکے ذمہ دار لوگوں کو چوراہوں پر پھانسی دی جائے ۔ ایسا مضر صحت پانی فراہم کرنے والی نام نہاد فیکٹریوں کے لائسنس کینسل کرکے انہیں سیل کر دیا جائے تا کہ آلودہ اور جراثیم زدہ پانی پینے سے مرنے والے لاکھوں افراد کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکے ۔ حتیٰ کہ سندھ کی حالت تو یہ ہے کہ حمل جھیل اور منچھر جھیل دونوں کا پانی بھی زہر آلود ہو چکا ہے اس پانی کو دریائے سندھ میں ڈالنے کی جو کوشش حکومتی سطح پر کی جارہی ہے اس سے دریا کا پانی زہر آلود ہو کر بیماریاں دیگر علاقوں تک بھی پھیل جائینگی بلوچستان کا ھیر دین ڈرین سسٹم جو واپڈا سکارپ نے تعمیر کیا ہے اس سے ڈیرہ مراد جمالی اور نصیر آباد کے علاقے کا ڈرینج پانی براہ راست حمل جھیل میں گرانے سے حمل جھیل کا پانی مکمل زہر آلود ہ ہو چکا ہے جھیل میں سے ہر سال کروڑوں روپے کی حاصل ہونے والی مچھلی نا پید ہو چکی ہے ہزاروں مچھیرے خاندان بے روز گار ہو گئے ہیں علاقہ سائیبریا اور روس سے آنے والی مرغابیوں اور دیگر نایاب پرندوں کے شکار سے بھی محروم ہوگیا ہے تازہ صورتحال کے مطابق جیکب آباد ، شہداد کوٹ ، قنبر ، وارہ ، میہیڑ ، کے این شاہ ، جوہی ، بھان سعید آباد اور سیہون شریف ، کاچھو کے علاقے گیسٹرو کے مرض سے شدید متاثر ہیں صرف وارہ تحصیل کے علاقے میں دیہات مرزا پور ، حمل ، فقیر محمد کھوسو، غلام رسول چانڈیو، نورالدین ماچھی ، دودو چانڈیواور دوسرے گوٹھوں میں زہر آلود حمل جھیل کا پانی استعمال کرنے سے سینکڑوںافراد گیسٹرو کا شکار ہو چکے ہیں دو سال میںنئے ضلع شہداد کوٹ میں 28افراد، دادو کے علاقہ ھیڑ میں 19افراد جیکب آباد میں 14افراد ، سیہون شریف میں9افراد، ٹھٹھہ میں 13افراد ، بدین 9افراد ، گھوٹکی 8افراد ، سکھر میں 9افراد ہلاک ہوچکے ہیں باقی ہلاکتیں قصبات تک میں بھی ہو رہی ہیں ۔ سینکڑوں افراد ہسپتالوں میں موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہیں دوسری طرف کاچھوکے بیلٹ میں زہر آلود سینڈ فلائی مکھی کے کاٹنے سے جلد کی بیماری لیشمینیا (Lashminiasis)سے 8ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں اس وبائی مرض سے بچاؤ کا کوئی تدارک حکومتی سطح پر نظر نہیں آرہا یہ بیماری سکھر، گھوٹکی مورو تک پھیل چکی ہے ۔ ملتان ، بہاولپور ، شیخوپورہ ، لاہور ، قصور اور گوجرانوالہ ایسے شہر ہیں جہاں زیر زمین پانی میں سنکھیا اور فلورائیڈ کی مقدار دوسرے شہروں کی نسبت کہیں زیادہ پائی جاتی ہے۔ ان ضلعوں میں بیس لاکھ سے زائد افراد یہ پانی پی رہے ہیں اور اسکے باعث مختلف معمولی اور سنگین نوعیت کے عوارض میں مبتلا ہیں ۔ جبکہ اس حوالے سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ پینے کے پانی میں سنکھیا اور دیگر کیمیکلوں کی آلودگی کی شرح میں وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے ۔ پینے کے پانی کی آلودگی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان شہروں میں گھریلو اور صنعتی فضلے اور گندگی کو مناسب انداز میں صاف کئے بغیر دریاؤں اور نہروں میں پھینک دیا جاتا ہے ۔ لاہور ، فیصل آباد ، ملتان ، راولپنڈی اور قصور وغیرہ میں یہ صورتحال کہیں زیادہ سنگین ہے ۔ گزشتہ کئی سالوں سے ایسی شکایات سامنے آرہی ہیں جن سے پانی میں آلودگی کے شواہد ملتے تھے ۔ تاہم اس معاملے کے حل کیلئے ٹھوس بنیادوں پر کاروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی ایسی پالیسی مرتب کی گئی جس کی بنیاد پر اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر ختم کیا جاسکے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان برسوں میں متعدد افراد پینے کے گندے پانی کی وجہ سے سنگین بیماریوں کا شکار ہوئے ۔ 2000ء میں لاہور کے علاقے مانگامنڈی میں سینکڑوں افراد اور خصوصی طور پر بچے پینے کے پانی کی آلودگی کی وجہ سے ٹانگوں اور کمر کی ہڈی کی عجیب بیماری کا شکار ہوئے ۔ اس بیماری کی وجہ سے بچوں کی ایک بڑی تعداد چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی یہ خاص بیماری پانی میں فلورائیڈ کی زیادتی کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی ۔
سنکھیا زمین میں پایا جانیوالا کیمیکل ہے جس کا استعمال انسان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ یہ زیر زمین موجود معدنیات میں بھی پایا جاتا ہے اور انکے ذریعے پانی میں شامل ہو تا ہے اسکے علاقہ کارخانوں وغیرہ کا فضلہ بھی زیر زمین پانی میں سنکھیا شامل کرنے کا باعث بنتا ہے ۔ سنکھیا والا پانی پینے سے جو مضر اثرات انسان پر ظاہر ہو سکتے ہیں ان میں سے چند ایک یوں ہیں : قے کا ہونا، پیٹ کا شدید درد ، اور خون آلود دست آنا ۔ تاہم اگر طویل عرصہ تک ایسا پانی پیا جائے جس میں سنکھیا موجود ہو تو اس سے مختلف نوعیت کے مضر اثرات ظاہر ہو سکتے ہیں جیسے جلد، مثانے ، گردوں ، اور پھیپھڑں کے کینسر کے علاوہ یہ کئی اور طرح کے جلدی و دیگر امراض کا باعث بن سکتا ہے ۔ 1998سے 2000کے دوران صرف بنگلہ دیش میں دو لاکھ ستر ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے ۔ ملک بھر میں ہزاروں اور صرف پنجاب میں تین ہزار سے زائد صنعتیں موجود ہیں جن میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں ہے جو فضلے کو صاف کرکے پھینکنے کے قانون کی پاسداری کرتی ہو ۔ فضلے کی صفائی کیلئے خاص طرح کی مشینیں درکار ہوتی ہیں اور قانون یہ ہے کہ ان مشینوں کی موجودگی کو یقینی بنائے بغیر کسی کارخانہ کو کام شروع کرنے کی اجازت نہیں مل سکتی ۔ ان تین ہزار صنعتوں میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں ہے جس میں فضلے کی صفائی کیلئے ایسی مشینیں لگی ہوں یہ اپنا فضلہ نالوں ، نہروں ، اور دریاؤں میں بہا دیتی ہیں ۔ اس صورتحال کو جانچنے کیلئے کوئی حکومتی ادارہ درد سر لینے کو تیار نہیں ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان صنعتوں کیساتھ ملے ہوئے ہیں اور انکی بے اعتدالیوں پر پردہ ڈالتے ہیں ۔ یہ ادارے ان افراد کو جو اس قانون کی خلاف ورزی کرکے انسانی جانوں کیلئے سنگین خطرہ پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں ، سزا دینے کی بجائے ان کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔ عالمی ادارہ صحت کے معیارات کے مطابق پینے کے صاف پانی میں فلورائیڈ کو 0.8ppmاور سنکھیا کو 20ppbسے زیادہ نہیں ہونا چاہیے جبکہ پانی میں فلورائیڈ 22ppmاور سنکھیا 920ppbتک موجود ہے ۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں گندا پانی پینے سے مختلف شکایات میں مبتلا ہونے والے افراد کے واقعات ہمیں مسلسل اس جانب متوجہ کرتے ہیں کہ اگر اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے سنجیدگی سے غور نہ کیا گیا تو بہت ممکن ہے کہ آئندہ یہ کہیں زیادہ سنگین صورتحال پیدا کرنے کا باعث بنے ۔ پاکستان میں پانی کے معیار کو بہتر بنانے اور اس میں آلودگی کے منفی اثرات سے لوگوں کو بچانے کیلئے حکومت کو ایسے خصوصی منصوبے کا اجراء کرنا چاہیے جس کے تحت ملک کے مختلف حصوں میں زیر زمین پانی میں آنے والی تبدیلیوں سے متعلق تحقیق کی جائے اور اگر کہیں ایسا پایا جائے کہ پانی میں انسانی صحت کیلئے مضر عناصر کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے تو وہ اس سے متعلق وہاں کے لوگوں کو ہی نہیں بلکہ متعلقہ حکومتی و دیگر اداروں کو بھی مطلع کریں تا کہ وہ قبل از وقت اس حوالے سے حفاظی اقدامات کر سکیں ۔ ٭ جن شہروں میں پینے کے پانی میں زیادہ آلودگی پائی جاتی ہے وہاں خصوصی طور پر پانی کے معائنے کیلئے لیبارٹریاں قائم کی جانی چاہئیں ۔
مقامی حکومتوں کو اس حوالے سے معلومات فراہم کی جائیں اور اتنے مالی عطیات بھی دئیے جائیں تا کہ مختلف علاقوں میں پینے کے پانی کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے فوری اقدامات کیے جاسکیں ۔ ٭ آبی ذخائر پر تحقیق کرنے والے حکومتی ادارے (PCRWR)نے پانی میں سے سنکھیا وغیرہ کو صاف کرنے کیلئے ایک فلٹر تیار کیا ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے علاقوں میں جہاں پینے کا پانی حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے ۔ لوگوں کو یہ فلٹر فراہم کرے ۔ ٭جن علاقوں میں زیر زمین پانی میں سنکھیا کی موجودگی کے شواہد ملیں ، وہاں حکومت کو ٹیوب ویل وغیرہ لگانے میں لوگوں کی ممانعت کرنی چاہیے۔ تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری E-mail:drihsanbari@yahoo.com