پاکستانی فوج کے زیرِ حراست بریگیڈیئر علی خان پر ایک شدت پسند تنظیم کے ساتھ روابط کے الزامات میں باضابطہ طور پر فردِ جرم عائدکر دی گئی ہے اور عسکری ذرائع کے مطابق ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی بہت جلد شروع کر دی جائے گی۔
بریگیڈیئر علی خان کو گزشتہ برس چھ مئی کو فوج کے صدر دفتر جی ایچ کیو راولپنڈی سے حراست میں لیا گیا تھا جہاں وہ خدمات انجام دے رہے تھے۔
فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ بریگیڈیئر علی خان اور چار دیگر حاضر سروس فوجی افسروں کو کالعدم تنظیم حزب التحریر کے ساتھ روابط رکھنے کے الزام میں باقاعدہ چارج شیٹ اسی ہفتے جاری کی گئی ہے جس کے ساتھ ان پر لگائے جانے والے الزامات کے حق میں شواہد (سمری آف ایویڈنس) بھی منسلک ہے۔ پاکستانی فوج کے شعب تعلقات عامہ نے اس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی تاہم پاکستانی فوج کی قانونی برانچ کے سابق سربراہ اور کورٹ مارشل مقدمات کے نامی گرامی وکیل کرنل ریٹائرڈ محمد اکرم نے بتایا کہ بریگیڈیئر علی کے لواحقین نے فوجی عدالت میں ان کا مقدمہ لڑنے کے لیے ان سے رابطہ کیا ہے۔ کرنل اکرم نے کہا کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ بریگیڈیئر علی خان کو چارج شیٹ اور سمری آف ایویڈنس جاری کر دیے گئے ہیں۔ فوجی قوانین کے مطابق چارج شیٹ جاری کرنے کے چند روز کے اندر ہی ملزمان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہو جانی چاہیے۔ ذرائع کا کہنا ہے چارج شیٹ میں بریگیڈیئر علی پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ کالعدم تنظیم حزب التحریر کے ارکان سے ملتے رہے اور ان کے مقاصد کے حصول میں ان کی مدد کرنے کا وعدہ کرتے رہے۔ الزامات کے مطابق بریگیڈیئر علی نے حزب التحریر کے ایجنڈے کو فوجی ہیڈ کوارٹر جی ایچ کیو میں بھی نافذ کرنے اور کئی فوجی افسروں کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کورٹ مارشل میں برگیڈیئر علی کے علاوہ بعض دیگر فوجی افسر اور حزب التحریر کے ارکان کے خلاف بھی مقدمہ چلے گا۔