افغانستان کے دارالحکومت کابل میں منگل کو سینکڑوں افراد نے سابق صدر برہان الدین ربانی کے قتل کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے طالبان اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی ‘آئی ایس آئی’ کو ان کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔سخت سکیورٹی انتظامات کے تحت تین گھنٹوں سے زائد جاری رہنے والے اس مظاہرے میں شریک بیشتر افراد طالبان مخالف ‘شمالی اتحاد’ کے سابق جنگجو اور کابل یونی ورسٹی کے طلبہ تھے۔ مظاہرین نے پروفیسر ربانی کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں اور وہ پاکستان اور طالبان کے خلاف شدید نعرے بازی کر رہے تھے۔مظاہرین کا موقف تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان کو غیر مستحکم کرنے اور وہاں جاری امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔واضح رہے کہ برہان الدین ربانی تاجک اکثریتی ‘شمالی اتحاد’ کے سابق جنگجوں اور سیاست دانوں میں سب سے نمایاں شخصیت تھے اور انہیں افغان حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم کردہ کونسل کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔پروفیسر ربانی گزشتہ منگل کو کابل میں واقع اپنی رہائش گاہ پر اس وقت ہلاک ہوگئے تھے جب طالبان مذاکرات کار کے بھیس میں آنے والے ایک خود کش حملہ آور نے ان سے گلے ملتے وقت خود کو دھماکا سے اڑادیا تھا۔خود کش حملہ آور نے دھماکا خیز مواد اپنی پگڑی میں چھپا رکھا تھا اور اس نے خود کو طالبان قیادت کا نمائندہ ظاہر کرکے پروفیسر ربانی تک رسائی حاصل کی تھی۔قبل ازیں پیر کو افغانستان کے ‘نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس)’ نے سابق صدر کے قتل کی واردات کے ایک اہم ملزم کو گرفتار کرنے کا دعوی کرتے ہوئے عندیہ دیا تھا کہ حملہ میں ‘کوئٹہ شوری’ کے نام سے معروف طالبان کی اعلی قیادت ملوث ہوسکتی ہے۔’این ڈی ایس’ نے کہا تھا کہ منگل کو ہونے والے ایک اجلاس میں اس کی جانب سے صدر حامد کرزئی سے سفارش کی جائے گی کہ تحقیقات کے دائرے کو افغانستان کی حدود سے باہر تک توسیع دی جائے جہاں ڈائریکٹوریٹ کے بقول پروفیسر ربانی کے قتل کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ تاہم حکام نے اپنے اس بیان کی وضاحت نہیں کی۔