جہاں نائن الیون2012 کو پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے حکمران گیارہ ستمبر2000کو امریکا میں پیش آنے والے واقعہ پر امریکیوں کے ساتھ مل کر اِن کے غم کی یاد بنا رہے تھے اور امریکی انتظامیہ کی خوشنودی کے خاطر اپنے اپنے غمزدہ پیغامات امریکا پہنچانے کی جلدی میں لگے پڑے تھے تواُسی روز دنیا اپنے معاملات زندگی چلانے میں بھی مصروف تھی جب لاہور میں جوتے بنانے والی ایک فیکٹری میں آتش زدگی کا واقعہ رونما ہواجس کے نتیجے میں کئی محنت کش شہیداور بہت سے زخمی ہوئے ابھی قوم اِس سانحہ سے سنبھال بھی نہ پائی تھی کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کراچی رونماہوگیابلدیہ ٹاؤن کراچی کی ایک فیکٹری میں آگ لگنے کی دوسری اطلاع سامنے آگئی جس کے نتیجے میں300زائد اِنسان لقمہ اجل بن گئے۔
جبکہ آج اپنے تئیں اِس سانحہ کو پاکستانی قوم اپنا قومی سانحہ قرار دے کر غمزدہ ہے اور پوری قوم اِس سانحے میں شہیداور زخمی ہوجانے والوں کے لواحقین کے ساتھ اِن کے غم میں برابر کی شریک ہے یہاںہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ اِس واقعہ کے بعد ملک کی محب وطن پاکستان مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی ، جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف دیگر سیاسی جماعتوں نے قوم پرست جماعتوں کی جانب سے بلدیاتی آرڈیننس کے خلاف تیرہ ستمبر کی سندھ میں ہونے والی ہڑتال سے علیحدگی کا اظہارکرکے قومی یکجہتی کا ثبوت دیاجو کہ ایک اچھااور مثبت اقدام ہے ییشک آج سانحہ بلدیہ ٹاؤن پر ساری پاکستانی قوم غمزدہ ہے اور حکمرانوں سے پُرزور اپیل کررہی ہے کہ اِس سانحہ کی صاف وشفاف تحقیقات کی جائے اور اِس واقع میں ملوث ذمہ داراں کو عبرت ناک سزادی جائے ۔
گزشتہ منگل کو جب سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی شکل میں پاکستان میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہواتو اِس روز پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی و تجارتی شہر کراچی جسے معیشت کا حب بھی کہا جاتااِس شہر کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں واقع علی انٹرپرائزنامی گارمنٹس کی فیکٹری میں بھی مشینیں اپنے چلانے والے کاریگروں کے اشاروں پر شور مچارہی تھیںاور اِن مشینوں کو چلانے والے ماہر کاریگر اِس جوش اور جذبے سے اِن مشینوں کو چلاکر اپنی صلاحیت دکھا کرفیکٹری مالکان کو اِن کی جیبیں بھرنے کے لئے پروڈکشن دے رہے تھے اور خوش تھے کہ جب شام ہوگی۔
تو اِنہیں گزشتہ ماہ کی تنخواہ ملے گی ابھی شام ہونے میں دیر تھی اور اِن کو تنخواہ کی وصولی کی خوشیاں ملنے ہی والی تھی کہ اِن مشینوں کو چلانے والے ایک کاریگرکی موبائل کی گھنٹی بجی اِس نے جب کال ریسیوکی یہ اِس کی بیوی کی کال تھی وہ کہہ رہی تھی کہ”آجی سُنیں آج تنخواہ لے کرذراجلدی گھرآئے گا…!! آپ کو یاد ہے ناں کہ آج اپنے منے کی تیسری سالگرہ ہے لیں اِس سے بھی بات کرلیں دیکھیں یہ کیا فرمائش کر رہا ہے… ؟جب ایک تین سالہ بچے نے اپنے ابو سے اپنی معصوم زبا ن سے فرمائش کی” ابو…ابو..ابوآج میری سالگرہ ہے..آپ شام میںجلدی گھر آنا …اور میرے لئے سالگرہ کا کیک اور کھلونے بھی لانا…میں آپ کا انتظار کررہاہوں آپ نے کہاتھاناں کہ ہم شام کا کھانہ باہر کھائیں گے…اور اِس کے بعد آگ کے شعلوں نے فیکٹری پر قیامت صغری برپاکردی ہر طرف آگ کے شعلے تھے اور اِنسانوں کی چیخ وپکار تھی اِن چیخ و پکار میں موبائل پر اپنی معصوم فرمائشیں کرنے والے تین سالہ بچے کے ابو کی آوازبھی شامل تھیں جو اِن میں گم ہوکررہ گئی تھی مگر زندگی سسکتی رہی مگر آگ کے بے رحم شعلوںنے اِسے بھسم کردیا۔
Lahore fire in factory
اُدھرشام ڈھلے سے رات گئے تک تین سالہ معصوم بچہ اپنے ابو کی آمد اور اپنی سالگرہ کا کیک کاٹنے اور کھلونے لینے کا انتظار کرتے کرتے سوگیا اِس کے ابوآج تین دن روز گزر جانے کے بعد بھی گھر نہ آ سکے مگراِس کے باوجود بھی اِس کی امی اور یہ ابھی تک اِس اُمید پر ہیں کہ اِس کے ابوضرور گھر آئیں گے اور اِس کی سالگرہ کا کیک اپنے بیٹے کو اپنی گود میں لے کر کاٹیں گے اور اِس کو ڈھیر سارے کھلونے بھی دلائیں گے اور یہ باہر کھانہ بھی کھائیں گے۔مگر ایک وسوسہ ہے کہ جو اندر اندر سر اٹھا کر اِن سے باربار یہ کہہ رہاہے کہ اِس کے ابو کی فیکٹری میں لگنے والی آگ اتنی شدید ہے کہ اِس نے فیکٹری میں اِس روز کام کرنے والے کسی بھی محنت کش کی زندگی کو نہیں بخشاہے300سے زائد شہید ہونے والے فیکٹری کے محنت کشوں میں اِس معصوم کے ابو بھی شامل ہیںجن کی الم ناک شہادت سے یہ آج یتیم اور اِس کی امی بیوہ ہوگئیں ہیں اگرایسا ہوگیاتو پھر اِس پہاڑ جیسی زندگی میںاَب اِس کی فرمائشیںپوری کرنے اور اِس کی سرپرستی کرنے والاکوئی نہیں ہوگا ۔
یہ وہ المیہ ہے جس کا ازالہ کیا ہمارا معاشرہ اور فیکٹری مالکان سمیت ہمارے اداروں کے وہ ذمہ داران کرسکیں گے جنہوں نے اِس فیکٹری کو آگ لگنے یا کسی اور ناگہانی حادثات کی صورت میں سیکورٹی انتظامات کے نہ ہونے کے باوجودسیفٹی سرٹیفکٹ کیوں جاری کئے…؟ اِس الم ناک سانحے سے اِس تین سالہ بچے کو یتیم ،اِس کی ماں کو بیوہ اور اِنہی کی طرح اِس فیکٹری میں کام کرنے والے تین سو سے زائد محنت کشوں کی شہادت کے بعداِن کی ماؤں کو اپنے بیٹوں کی محبت اور تڑپ میں پاگل ، سیکڑوں بہوںکو اپنے بھائیوں اور بہنوں کے غم سے نڈھال اور سیکڑوں بیوؤں کو بیوہ کرنے کے ذمہ دار کون لوگ ہیں اور کب تک ہمارے ادارے اپنی نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے اِسی طرح معصوم اِنسانوں کو حادثات میں جھونک کر قبرکی آغوش اور موت کی وادی میں دھکیلتے رہیں گے۔
اِس الم ناک سانحہ کے بعد سوال یہ پیداہوتاہے کہ آج بارہ سال گزرجانے کے بعد بھی ہماری قوم کو امریکا میں پیش آنے والاسانحہ نائن الیون تو یاد ہے کیاہمیں نائن الیون 2012کو بلدیہ ٹاؤن کی علی انٹرپرائز نامی گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 300سے زائد اِنسانوں کی شہادت کاپیش آنے والا سانحہ بھی ہمیں یاد رہے گا جس میں زندگی سسکتی رہی مگر آگ کو ذرا بھی اِس پر رحم نہ آیا اور یہ اُسے بھسم کرتی رہی تین روز تک مسلسل جلنے والی یہ آگ جِسے ملکی تاریخ میںلگنے والی سب سے بڑی آگ قرار دیاجارہاہے جس میں اتنی بڑی تعداد میں اِنسان لقمہ اجل بنے مگریہ آگ ایسی خطرناک درجے کی آگ تھی کہ جو تین روز تک تین سو سے زائد اِنسانی جانیں لے کر بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی آج تیرہ ستمبر ہے اور صبح کے ساڑھے نوبجے رہے ہیں۔
Asif ali zardari
اِن سطور کے رقم کرنے تک اطلاعات یہ ہیں کہ تین روز گزرجانے کے باوجود بھی علی انٹرپرائز گارمنٹس میں نائن الیون کولگنے والی آگ ابھی تک اپنا غیض وغضب دیکھارہی ہیفیکٹری میں بچ جانے والے اِنسانوں کو ڈھونڈدھونڈ کر جلا رہی ہے۔کیا ہمارے حکمران اِس سانحہ کو قومی سانحہ قرار دے کر اِس واقعے کی سنجیدگی سے صاف وشفاف تحقیقات کرائیں گے اور کیا اِس تحقیقاتی رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش کرکے اِس کے ذمہ داروں کو بھی عبرت ناک سزادے کر اِنہیں نشانِ عبرت بنا دیں گے اور کیا یہ اِس بات کی بھی ذمہ داری لیں گے کہ آئندہ کراچی اورلاہور سمیت پورے ملک میں ایسے واقعات رونمانہیں ہوں گے اور اُن اداروں کا ضرور احتساب کیا جائے گاجن کے افسران رشوت کے عوض علی انٹرپرائز گارمنٹس جیسی فیکٹریوں کو جو موت کے بنکر کی شکل میں موجودہیں اِنہیں سیفٹی سرٹیفکٹ اور پرمنٹ دیتے ہیں ۔