پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے ترجمان کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ بم دھماکوں کے جرم میں اکیس برس سے سزائے موت کے منتظر بھارتی شہری سربجیت سنگھ کی رحم کی اپیل منظور نہیں کی گئی ہے۔
صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ صدر زرداری کا سربجیت سنگھ کی سزا معاف کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے وزرات داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ پاکستان میں قید ایک اور بھارتی قیدی سرجیت سنگھ ولد سُچا سنگھ کی سزا مکمل ہو چکی ہے اور انہیں واپس بھارت بھیجا جائے کیونکہ سزا مکمل ہونے کے بعد ان کو جیل میں رکھنا غیر قانونی ہے۔
صدارتی ترجمان کے مطابق سرجیت سنگھ کی رہائی کے معاملے سے بھی صدر زرداری کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
فرحت اللہ بابر کے مطابق سرجیت سنگھ کی سزاء سنہ 1989 میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے وزیراعظم بینظیر بھٹو کی درخواست پر معاف کرتے ہوئےعمر قید میں تبدیل کر دیا تھا۔
بھارت کے سرکاری خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق سرجیت سنگھ گزشتہ تیس سال سے پاکستان میں قید ہیں اور اس وقت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ہیں۔
پی ٹی آئی کے مطابق سرجیت سنگھ کو جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں پاک بھارت سرحد کے قریب سے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
اس سے پہلے صدر کی جانب سے سربجیت سنگھ کی رحم کی اپیل منظور کیے جانے کی خبر کو مقامی میڈیا نے نمایاں کوریج دی تھی اور بھارت میں سربجیت سنگھ کے آبائی علاقوں میں لوگوں کی خوشی میں مٹھائی تقسیم کرنے کے مناظر بھی نشر کیے گئے۔
خیال رہے کہ اس سے پہلے سیکرٹری قانون یاسمین عباسی نے بتایا تھا کہ وزارتِ قانون نے کچھ عرصہ قبل سربجیت سنگھ کی موت کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنے کی سمری ایوان صدر بھجوائی تھی جس پر صدر نے سربجیت سنگھ کی رحم کی اپیل منظور کرتے ہوئے ان کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی ہے۔
اس غلط فہمی کی وجہ سے بھارت میں سربجیت سنگھ کے اہلخانہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی اور سربجیت سنگھ کی بیوی سُكھ پریت کور نے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں پاکستان سے کئی فون آ رہے تھے. اب یقین ہو گیا ہے کہ پاکستان کے صدر نے ان کی سزا کو کم کر کے عمر قید کر دیا ہے اور ہم بہت خوش ہیں. اب ان کی رہائی ہو سکتی ہے اور وہ کبھی بھی بھارت آ سکتے ہیں‘۔
خیال رہے کہ بھارت میں قتل کے مقدمے میں سزا کاٹنے والے معمر پاکستانی قیدی ڈاکٹر خلیل چشتی کی رواں برس مئی میں عدالتی حکم پر ضمانت پر رہائی اور انہیں پاکستان جانے کی مشروط اجازت دیے جانے کے بعد سربجیت سنگھ کی سزا پر نظرِ ثانی کا معاملہ ایک مرتبہ پھر زور پکڑ گیا تھا۔
مئی میں ہی بھارت کی سپریم کورٹ کے سابق جج اور پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری سے بذریعہ خط اپیل کی تھی کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سربجیت سنگھ کی سزا معاف کر دیں۔
سربجیت سنگھ کی بہن بھی ماضی میں پاکستان کا دورہ کر کے حکومتِ پاکستان سے اپنے بھائی کی رہائی کی اپیل کر چکی تھیں۔
سربجیت کے ورثاء نے اُن کی معافی کے لیے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو درخواست دی تھی جسے انہوں نے رد کر دیا تھا اور انہیں مئی دو ہزار آٹھ میں پھانسی دی جانی تھی تاہم تین مئی کو حکومتِ پاکستان نے اس پھانسی پر عملدرآمد عارضی طور پر روک دیا تھا۔
واضح رہے کہ سربجیت سنگھ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سنہ 1990 میں اُس وقت گرفتار کیا جب وہ لاہور اور دیگر علاقوں میں بم دھماکے کرنے کے بعد واہگہ بارڈر کے راستے بھارت فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
دوران تفتیش ملزم سربجیت سنگھ نے ان بم حملوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا جس پر انسدادِ دہشتگردی کی عدالت نے مذکورہ بھارتی شہری کو انیس سو اکیانوے میں موت کی سزا سُنائی تھی۔ اس عدالتی فیصلے کو پہلے لاہور ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔