تاریخ کے عمیق مطالعہ کے بعد ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پاکستان میں50سال بعد اتنی شدید سردی پڑی ہے۔جس نے بلند وبالا مقام مری اور میدانی علاقے لاہور، میانوالی، سیالکوٹ ودیگر کے موسم میں مماثلت پیدا کر دی۔
موجودہ موسم کا فائدہ غریب،بے سہارا،ی تیم، مفلوک الحال ووٹروں کو یہ نصیب ہوا کہ وہ مری کا موسم اپنے گھروں،محلوں،گلیوں،سڑکوں ،چوکوں میں انجوائے کر سکتے ہیں۔ورنہ موجودہ جمہوری دورمیں عوام کو دو وقت کی روٹی کی فکر نے ڈپریشن کا شکار بنایا ہوا ہے۔
قارئین ایک طرف موسم نے اپنا 50سالہ ریکارڈ توڑے اورمزید ریکارڈ کے حصول کیلئے کوشاں نظر آیا تو دوسری طرف سیاسی موسم نے اپنا68سالہ ریکارڈ توڑدیا ہے؟طاہر القادری کی آمد نے تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران کی راتوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہے۔موجودہ حالات میں پارٹی لیڈران دن رات اپنے ورکروں سے جلسہ،جلوس،کارنر میٹنگ ،ای میل ،فیکس،موبائل فون،SMS،و دیگر ذرائع سے رابطے میں نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری سے ظاہری طورپر تمام سابقہ سیاسی جماعتوں کے ورکر و نام نہاد لیڈر اختلاف کر سکتے ہیں مگر اندرون دل و ہ شکریہ ادا کرتے تھکاوٹ محسوس نہیں کرتے ہونگے؟کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے جلسہ نے میاں برادران،بھٹو فیملی،سونامی ودیگر کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ عوام کی سوچ اب وہ نہیں رہی کہ80روپے کی بریانی اور20روپے کی بوتل پی کر 5سال تک دو وقت کی روٹی کو روتے رہے۔صبح شام گیس کے انتظار میں چولہوں کے پاس بیٹھے اوررات 10-12بجے تک شام کا کھانا نصیب ہو،8دن تک بجلی کے انتظار میں رہے کہ کب بجلی آئے گی اور کپڑے استری کرکے نہایا جائے۔
کیونکہ موجودہ وقت میں تو صرف25-30منٹ لائٹ نصیب ہوتی ہے جس میں یا تو کپڑے استری کرلو یا پھر نہا لو اور جتنی سردی کا موسم ہے بغیر گرم پانی کے نہانا اتنا ہی مشکل ہے جیسے پاکستان میں جمہوریت کا حصول۔
عوامی رائے کے مطابق اگر سابقہ ادوار میں سیاسی جماعتیں پارٹی فنڈ کے بغیر عوامی سوچ و فکر کے حامل افراد کو ٹکٹ دیتی تو ممکن تھا کہ وہ اپنے دور اقتدار میں عوام کے مسائل کے حل کیلئے قومی وصوبائی اسمبلیوں میں جدوجہد کرتا نظر آتے۔
Pakistan Election
مگر ہماری سیاسی جماعتیں،سرمایہ دار، امپورٹیڈ، جاگیردار ،قبضہ مافیا، جرائم پیشہ افراد کو پارٹی ورکر و عوامی لیڈرپر ترجیح دیتی آئے ہے جو الیکشن کے وقت اپنے لیڈر کے گلے میں پیسوں کا ہار پہناتا اورعوام کے گلوں میں پھانسی کا پھندہ، پچھلے سالوں میں جتنی کرپشن اور مہنگائی ہوئی ہے اس نے بیشتر گھروں کے کفیل، تاج کو خود خوشی کرنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔
موجودہ کھانسی کے نسے سے ہونے والی ہلاکتیں بھی اسی کی ایک قسط نظر آتی ہے؟ آئندہ ماہ سے قوم کے معمار،مستقبل کے سالانہ امتحانات کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ جس میں بچوں کو اپنی قابلیت کے جوہر دیکھانے کیلئے دن رات محنت کرنا پڑتی ہے اورہر بچے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی کلاس و سکول میں اول پوزیشن حاصل کرئے تاکہ اس کے والدین، فیملی اور اساتذہ کا نام روشن ہو۔ اب غریبوں کے بچوں کو تو دو وقت کی روٹی نصیب ہونا مشکل ہے وہ اپنے گھر میں مصنوعی بجلی و گیس کیسے پیدا کر سکتے ہیں۔
جو ان کو دن رات محنت کرنے میں مدد دے۔اب بچوں کی آنکھوں میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اندھیروں میں کتابوں کا مطالعہ کر سکے۔سکول ورک کر سکے۔حکمرانوں کو عوام کے بچوں سے کیا کام ان کے بچے تو بیرون ملک آرام سے تعلیم حاسل کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
2013ء شروع ہوچکا ہے اورآئندہ4/5ماہ میں ملک بھر میں جنرل الیکشن ہونے والے ہیں اگر ہماری عوام ان چار پانچ ماہ میں موجودہ وسابقہ حکومتوں کی کارکردگی کا بغور جائزہ شروع کردے اور الیکشن والے دن صرف اورصرف اس پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے جو مقامی سطح پر اچھی پوزیشن کا حامل ہو اور وہ پولیس اسٹیشن،پٹواری وعدالت کی سیاست سے پاک ہو تو عین ممکین ہے کہ وہ امیدوار کامیاب ہونے کے بعد عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نظر آئے گا۔راقم کی اللہ کے حضور دعا ہے کہ وہ پاکستان کو ایک سچی،دیانتدار ،ایماندار ،عوامی سوچ کی حامل لیڈرشپ نصیب کرے(آمین)