افغانستان میں گزشتہ ایک دہائی میں پڑنے والی شدید ترین سردی کی لہر کے باعث چالیس بچے ہلاک ہو گئے ہیں۔ہلاک ہونے والے زیادہ تر بچے کابل شہر کے ان کیمپوں میں رہ رہے تھے جو طالبان اور نیٹو فورسز میں لڑائی کے باعث نقل مکانی کرکے آنے والوں کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔رات کے وقت انتہائی کم درجہ حرارت میں یہ بچے سردی سے بچا کے لیے مناسب سہولیات نہ ہونے کے باعث ٹھٹھرتے رہے۔
اب ان کیمپوں تک کچھ مدد پہنچائی جا رہی ہے تاہم سرد موسم میں خیموں میں رہنے والے ان پناہ گزینوں کے لیے افغان حکومت کی جانب سے مدد کے سست اقدامات پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ایک آزاد افغان رکن پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ غیر ذمہ دارانہ رویہ عام ہو گیا ہے اور ایسا ہر سال ہو رہا ہے۔ بے گھر لوگوں کے لئے بنے محکمے کے وزیر نے کہا ہے کہ بچوں کی موت پر انہیں افسوس ہے۔فلاحی تنظیم سیو دی چلڈرن کے مطابق رواں ہفتے کے اوائل میں سردی کی شدید لہر کے باعث اٹھائیس بچے ہلاک ہو گئے تھے۔ سرد موسم سے متاثر ہونے والے بچوں میں زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے بچے ہیں جو شدید سردی کے باعث خطرے میں ہیں۔
تنظیم کے ترجمان کا کہنا تھا کہ شدید سردی سے کابل کے ساتھ ساتھ شمالی اور وسطی افغانستان بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ یہاں پہلے ہی بہت سے بچے خوراک کی کمی اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب بیحد کمزور ہیں۔ ہمیں اس بات کا بھی ڈر ہے کہ برف پگلنے کے بعد ان کیمپوں میں کہیں سیلاب نہ آجائے۔ کابل میں تنظیم نے دو ہزار سے زیادہ پلاسٹک شیٹیں بھی بانٹیں اور بچوں کے لیے کمبل بھی دیے تھے۔
تنظیم کے افغانستان میں ڈائریکٹر باب گریبمن نے بتایا یہاں پر سردی بیرحم اور شدید ہے اور چھوٹے بچوں کو اس سے بچنے کے لیے سامان میسر نہیں ہے۔ تاہم کچھ بچوں کو بغیر ایندھن، خوراک، گرم کپڑوں اور جوتوں کے گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔