سفر نامہ ٹرین

Khamosh Tamasha

Khamosh Tamasha

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ریل گاڑی کے سفر کو آرام دہ، پُرسکون اور سہل قرار دیا جاتا ہے کیونکہ یہ مسافروں کو مختلف مناظر، ثقافتوں اور نظاروں سے لطف اُٹھانے کے قابل بناتا ہے۔ یہ ٹرینیں نہ صرف صاف ستھری ہوتی ہیں بلکہ ان میں گرم ٹھنڈا پانی، بجلی، ٹشوپیپر، ایئر کنڈیشنر تک کا بندوبست ہوتا ہے۔ جدید تیز رفتار ٹرینیں شہروں کے درمیان مسافروں کے تیز نقل و حمل سے انہیں بروقت انداز میں ملاقاتوں اور اجلاسوں تک رسائی کے قابل بناتی ہیں۔ گھڑی کی سوئیاں غلط ہو سکتی ہیں لیکن ریلوے کا ٹائم ٹیبل نہیں کیونکہ سب کچھ کمپیوٹرائزڈ ہوتا ہے۔ان ممالک میں نہ صرف عوام بلکہ وزراء اور امراء بھی ٹرین کے سفر کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ سفر محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ آرام دہ بھی ہے۔ ٹرین کے سفر کے لحاظ سے یورپ سب سے اچھی جگہ ہے جہاں ہر چند گھنٹوں کے بعد نیا ملک آ جاتا ہے اس لیئے سیاحت کرنے والے لوگ دوسری سفری سہولیات کی نسبت ٹرین کو ترجیح دیتے ہیں۔ لوگ رات کو سفر کرتے ہیں اور آرام دہ بستروں پر سو کر ہوٹل کا کرایہ بچا لیتے ہیں۔

میری طرح جس نے یورپ اور امریکہ نہیں دیکھا اسے پتہ ہی نہیں ریل کیا ہوتی ہے اور ریل کا سفر کیا ہوتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں نے ریل کے سفر کو متعارف کرایا۔ اس خطے میں برطانوی سامراج نے جو ریل کا نظام لگایا وہ خود برطانیہ سے زیادہ جدید تھا۔اٹھارہ سو پینتالیس میں کلکتہ سے رانی گنج، بمبئی سے کلین اور مدراس سے ارکونام تک تین ریل گاڑیاں تجرباتی طور پر چلائی گئیں۔ پاکستان کے قیام سے قبل اس خطے میں سب سے پہلی ریلوے لائن کراچی اور کوٹری کے درمیان بچھائی گئی۔ اس کے بعد اٹھارہ سو باسٹھ کو لاہور اور امرتسر کے درمیان پہلی گاڑی چلی ۔ اٹھارہ سو پینسٹھ میں ملتان کو لاہور سے ریلوے کے ذریعے ملا دیا گیا ۔

اٹھارہ سو اَسی کے عشرہ میں راولپنڈی تک ریلوے لائن بچھائی گئی جبکہ اٹھارہ سو نواسی میں سکھر کے مقام پر دریائے سندھ پر پُل تعمیر ہونے سے پنجاب اور سندھ ریل کے ذریعے مل گئے۔ انگریز کے دور میں ریلوے ٹرین وقت پر پہنچتی تھی، ویٹنگ روم اور پلیٹ فارم صاف ستھرے ہوا کرتے تھے، کھانا لذیذ ہوتا تھا۔اسکی وجہ یہ تھی کہ انگریز افسر کرپٹ نہ تھے، چونکہ وہ خود کرپٹ نہ تھے اس لیئے ماتحت عملہ بھی کرپٹ نہ تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد انیس سو ستر کے عشرے تک پاکستان میں ریل کا سفر سستا، آرام دہ اور باوقار سمجھا جاتا تھا۔ یورپی ممالک کی طرح یہاں بھی لوگ سیر سپاٹے اور تفریح کے لیئے ٹرین کے سفر کو ترجیح دیتے تھے لیکن آج معاملہ اس کے برعکس ہے۔ 

آج ریلوے کے اپنے اعلانات کے مطابق سینکڑوں انجن خراب پڑے ہیں اور اتنی ہی ٹرینیں بند کر دی گئی ہیں۔ جو تھوڑی بہت رہ گئی ہیں وہ گھاٹے میں چل رہی ہیں اور وقت کی پابندی نام کی کوئی چیز اس نظام میں نہیں پائی جاتی۔ جو انجن رواں دواں ہیں وہ بھی اس قدر بوسیدہ ہو چکے ہیں کہ کسی قدیم عجائب گھر میں رکھنے یا پھر تول کر بیچنے کے لائق ہیں۔ پاکستان میں اس وقت بھی انگریز کے زمانے کی بچھائی ہوئی 80 فیصد پٹڑیاں زیرِ استعمال ہیں جن کی مدت پوری ہوئے ایک عرصہ ہو چکا ہے۔ وہ تو بھلا ہو گوروں کا کہ ان کے زمانے میں بدعنوانی اور کرپشن نہیں تھی ورنہ یہ پٹڑیاں بھی کب کا داغ مفارقت دے چکی ہوتیں جیسا کہ موجودہ زمانے کے پُل اور سڑکیں ایک سال سے پہلے ہی اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں۔

گوروں اور ہم میں ایک ہی فرق تو ہے، وہ ہر چیز بنا لیتے ہیں اور اُن کے بچے اس کا خواب دیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں جبکہ ہم اپنے لوگوں کے خوابوں کو کبھی نہیں توڑتے اور انہیں ہمیشہ خواب ہی رہنے دیتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں حکمرانوں نے ریلوے کی وہ درگت بنائی کہ الامان و الحفیظ۔ ملک سے گیس ،بجلی ،پانی سب ختم ہے اور مزید ظلم یہ کہ اب ریلوے بھی خاتمے کی طرف جا رہی ہے۔ لگتا ہے تانگوں اور اونٹوں کا دور واپس آیا ہی چاہتا ہے۔ گدھا گاڑی اب کم ہی نظر آتی ہے مگر اُمید ہے جلد دیکھنے کو ملے گی، جب لوگ ڈرائیور کو حکم دیں گے جلدی سے گدھا نکالو مجھے دفتر سے دیر ہو رہی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں ٹرین کی جدید ترین سفری سہولیات بارے سُن کر مجھے بھی بذریعہ ٹرین سیر و سیاحت کا بڑا شوق تھا۔ اس سے پہلے میں نے کبھی ٹرین میں سفر نہیں کیا تھا لیکن جب سے وزیر ریلوے مسٹر غلام احمد بلور نے صدر صاحب کو ریلوے بند کرنے کا صائب مشورہ دیا تو مجھے اپنے اس ادھورے خواب کی تکمیل ماند پڑتی نظر آئی۔ اس سے پہلے کہ میں کسی اور سفری ذریعے کو اپناتا پہلی فرصت میں ہی ریل کا ٹکٹ حاصل کیا۔ یہ ٹکٹ ریلوے میں ملازم اپنے ایک قریبی عزیز کے توسط سے فوری مل گیا ورنہ مجبوراً مجھے کوئی اور سفری ذریعہ اختیار کرنا پڑتا اور یوں ریل کے ذریعے سفر میرے لیئے ایک ادھورا خواب بن کر رہ جاتا۔ بذریعہ ٹرین میرا یہ سفر راولپنڈی سے کراچی تک تھا۔ اس سفر کے دوران میں کن مقامات کی سیر اور ثقافت سے لطف اندوز ہوا اور ٹرین کے اندر مسافروں کو کیا مشکلات پیش آتی ہیں، یہی میرے اس سفرنامے کا اصل موضوع ہے۔

راولپنڈی ریلوے اسٹیشن کا شمار ملک کے بڑے اسٹیشنوں میں ہوتا ہے جہاں پشاور، لاہور اور کراچی سمیت دوسرے شہروں سے آنے والی دو درجن سے زائد گاڑیاں روزانہ آ کر رُکتی تھیں لیکن اب یہ تعداد محض چند گاڑیوں پر مشتمل ہے۔ مجھے جس ریل گاڑی کا ٹکٹ ملا اُس کی کراچی روانگی کا ٹائم پونے نو بجے تھا۔ ریلوے اسٹیشن پر پہنچ کر ٹائم دیکھا تو ساڑھے آٹھ بج رہے تھے ۔اس سے پہلے کہ سیدھا پلیٹ فارم پر جاتا پہلے باتھ روم چلا گیا۔ جس خود مختار ریلوے کی اپنی رہائشی کالونیا ں و فلیٹ، پولیس، ہسپتال، سکول، کھیل کے میدان، زرخیز و کمرشل کھربوں روپے کی زمینیں ہیں اسکے باتھ روم کی حالت دیکھنے کے قابل نہ تھی۔ پانی کے نلکے موجود تھے لیکن اکثر واش رومز میں ٹوٹیاں ندارد، دروازے ٹوٹے ہوئے، فلیش خراب اور گندگی کے ڈھیر دیکھ کر پہلی فرصت میں ہی وہاں سے بھاگنا پڑا۔ یوں لگتا تھا کہ یہ باتھ رومز بھی انگریز راج میں بنائے گئے اور پھر کسی نے اس طرف توجہ تک نہیں دی۔ 

پلیٹ فارم پر مسافروں کا رش تھا لیکن ٹرین ندارد۔ ہر ایک کو اُس لاڈلی کا انتظار تھا جس کے موجودہ مسافر ٹرینوں میں بڑے چرچے ہیں کہ یہ اپنے نام کی طرح تیز رفتار ہے اور بروقت منزل تک پہنچاتی ہے اور پھر سب نے دیکھا کہ پونے نو بجے روانگی کا ٹائم دینے والی یہ ٹرین آدھا گھنٹہ تاخیر سے اسٹیشن پر نمودار ہوئی۔ تمام مسافروں کے سوار ہونے سے ٹرین اپنی منزل کی طرف رواں تھی۔ مجھے جو سیٹ ملی وہ سیر و تفریح کیلئے انتہائی موزوں تھی اور عجب اتفاق کہ میرے ساتھ بیٹھے دیگر پانچوں مسافروں کا تعلق بھی میرے آبائی ضلع سے تھا جن میں تین خواتین اور دو مرد شامل تھے۔ تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی پھر جان پہچان کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس کوچ (ڈبے) میں ہم سوار تھے اُس کی بیشتر نشستیں خالی پڑی تھیں لیکن ریلوے اسٹیشن کے ٹکٹ بوتھ پر روانہ ہونے والی ٹرین کی تمام برتھ اور سیٹیں پُر ہونے کا پیغام آویزاں تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں کی مُٹھی گرم کرنے سے یہ خالی نشستیں بھی فوری پُر ہو جاتی ہیں اور اس کا کوئی سرکاری ریکارڈ بھی نہیں رکھا جاتا۔ ٹرین منزل کی طرف گامزن تھی کہ تھوڑی دیر بعد واش روم جانے کی ضرورت پیش آئی۔ اندر گھسا تو دروازے نے بند ہونے سے انکار کر دیا۔ نہ کنڈے نہ چٹخنیاں، اگر دروازہ پکڑ کر بند کرتا تو حاجت غائب، دروازہ چھوڑتا تو ستر غائب۔ بجلی جلانے کیلئے سوئچ کو ہاتھ لگایا تو بجلی غائب، اوپر دیکھا تو بلب غیر حاضر تھا۔

واش روم لوٹے کے نام تک سے ناواقف تھا جبکہ پانی کا نلکا کھولا تو اندر سے گرم گرم آہیں برآمد ہوئیں۔ رو دھو کر واپس نکل آیا اور اگلے سٹاپ سے بوتل میں پانی بھر کر کام چلایا۔ میں سمجھ بیٹھا تھا کہ اکیسویں صدی آ گئی ہے کوئی تبدیلی ریل گاڑی کے اندر بھی ہوئی ہوگی مگر معاملہ دگرگوں تھا۔ریل کے سفر کے دوران کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیٹ کی بکنگ کے بغیر بعض لوگ واش روم کے آس پاس لیٹ جاتے ہیں جس سے نہ صرف عام لوگ بلکہ خواتین اور بچوںکا واش روم تک جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ کھانے اور چائے کی قیمت زیادہ جبکہ معیار انتہائی ناقص ہے۔ چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث مفت خورے اور گداگر ٹرین میں داخل ہو جاتے ہیںاور یہ ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔  ریل گاڑی کی چھک چھک مجھے بھی اچھی لگتی ہے۔

راولپنڈی سے روانہ ہونے والی ٹرین جہلم، کھاریاں، لالہ موسیٰ، گجرات، وزیر آباد، گوجرانوالہ سے ہوتی ہوئی لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچی۔ جہاں ایک گھنٹہ رُکنے کے بعد اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئی۔ لاہور کینٹ، کھوٹ لکھپت، رائے ونڈ سے ہوتی ہوئی چھانگا مانگا پہنچی جہاں اسے کوئی ڈیڑھ گھنٹے کیلئے بریک لگ گئی۔ انتظامیہ سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ پتوکی سے آنے والی ایک ٹرین نے کراس کرنا ہے جس کے بعد یہ روانہ ہوگی۔ بیشتر مسافر غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے اور ٹرین سے اُتر کر پٹڑی پر بیٹھ گئے، یوں چھانگا مانگ کی سیاست شروع ہو گئی۔ کوئی وزیر ریلوے کو دنیا کے ناکام ترین وزیر کا خطاب دیتا رہا، کوئی سیاست دانوں کو اُلٹا لٹکانا چاہتا تھا جبکہ کوئی سرعام پھانسی دینے کا خواہشمند نظر آیا۔ یہ گفتگو اس قدر دلچسپ تھی کہ وقت کا پتہ ہی نہ چلا اور پتوکی سے آنے والی ٹرین چھک چھک کرتی گزر گئی۔ جس کے بعد تمام مسافر دوبارہ ٹرین میں سوار ہو کر اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے اور یوں ٹرین پھر منزل کی طرف گامزن ہو گئی۔

لاہور ریلوے اسٹیشن سے روانگی کے بعد ٹرین جہاں سے بھی گزرتی ، دیواروں پر ایک ایسے نجومی کی وال چاکنگ نظر آتی جو اُلّو کے خون سے زندگی اور موت دینے کا دعویدار تھا۔ میں نے سُنا تھا کہ لاہور میں نجومیوں کے سرعامِ وال چاکنگ پر پابندی عائد ہے پھر گمان گزرا کہ شاید یہ کوئی سیاسی نجومی ہوگا جو اس قدر ڈھٹائی سے جگہ جگہ اپنی پبلسٹی کرا رہا ہے۔ اوکاڑہ، ساہیوال، میاں چنوں سے ٹرین گزرتی تو کھیتوں میں مرد و خواتین کام کرتے نظر آتے۔ یہاں تک کہ ایک جگہ کسانوں کو بے موسمی تربوز ٹرک میں لوڈ کرتے دیکھا گیا۔ سڑک پر موٹر سائیکل ایک ہوتا جبکہ اُس پر پورا خاندان سوار رہتا۔ ٹرین بھی جگہ جگہ رکتی، ہچکولے کھاتی، پتہ نہیں کتنی جگہ رکی جبکہ ملتان پہنچ کر انجن نے دانت دکھا دیئے اور چلنے سے انکار کر دیا۔ رات کے تقریباً بارہ بجے کا وقت تھا اور میں بھی برتھ پر چڑھ کر سو گیا۔ پھر معلوم نہیں ٹرین کب روانہ ہوئی۔یوں خان پور، رحیم یار خان اور صادق آباد تک میں سویا ہوا تھا البتہ جیسے ہی سندھ کا علاقہ شروع ہوا صبح کی آذان کیساتھ ہی میں بھی بیدار ہو گیا۔ سندھ میں گھوٹکی، پنوں عاقل، روہڑی، خیرپور، سہراب پور، نواب شاہ، شہداد پور میں دلکش مناظر سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ ان علاقوں میں ہر دوسرا شخص سندھی ٹوپی میں نظر آیا جبکہ بیشتر ہندو خواتین نے پورے بازئوں پر چوڑیاں چڑھا رکھی تھیں۔ صبح کا ناشہ روہڑی اسٹیشن پرکیا۔سفر کے دوران ایک جگہ کتے اور بیل کی لڑائی دیکھی، گدھے پر بیٹھا ایک شخص اس قدر لمبا تھا کہ اُسکے پائوں زمین کو چھو رہے تھے۔

مرد و خواتین کھیتوں میں کام کرتے نظر آئے۔ چاول، کپاس ، گنے کی فصلیں اور کیلے، آم، کھجور کے باغات دیکھے۔ جگہ جگہ جوہڑوں میں سیلابی پانی جمع تھا۔ مال مویشی بھی وہی پانی پینے پر مجبور تھے۔ سندھ میں حالیہ آنے والے سیلاب کی وجہ سے کپاس سمیت کئی فصلیں متاثر نظر آئیں۔ ٹرین کے راستے میں بیشتر مکانات کچے تھے، مال بردار اونٹوں کی اعلیٰ نسل دیکھنے کو ملی، چرواہے کھیتوں میں بھینس، بیگ، گائے، بکریوں کے ساتھ موجود تھے، پرندوں میں بگلے بھی چرواہوں کے آس پاس تھے۔ پہلی بار بھوسے کے پہاڑ دیکھنے کو ملے۔ خیرپور میں چند نوجوان بندوقیں لیئے کھڑے تھے۔

ٹرین سے نظارہ کرنیوالے اکثر مسافر انہیں ڈاکوئوں سے تشبیہہ دیتے لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں تھا بلکہ وہ پرندوں کے شکار کیلئے موجود تھے۔نواب شاہ میں نہر کے گدلے پانی میں خواتین کپڑے دھوتی رہیں۔ ٹنڈو آدم میں گندگی کے ڈھیر دیکھنے کو نصیب ہوئے۔ ٹرین کے پورے سفر میں گھر والوں اور دوست احباب سے فون اور ایس ایم ایس پر رابطہ رہا۔ حیدر آباد اسٹیشن پر پہنچ کر دس منٹ کیلئے ٹرین رُک گئی اور جیسے ہی روانہ ہوئی منزل کے قریب پہنچنے کی خوشی میں یہ تک معلوم نہ رہا کہ حیدر آباد سے کراچی تک راستے میں کون کون سا سٹاپ آیا۔ بڑے بھائی کی خواہش تھی کہ میں لانڈھی اسٹیشن پر اُتروں جہاں وہ موجود ہوں گے جبکہ بھتیجے کا اصرار تھا کہ میں کینٹ اسٹیشن اُتروں اور وہ مجھے لینے آئیگا۔ راولپنڈی سے صبح نو بج کر پچیس منٹ پر روانہ ہونے والی یہ ٹرین بالآخر اگلے دن شام پانچ بجے کے قریب لانڈھی اسٹیشن پر رُکی جہاں میرے بھائی گاڑی لیئے موجود تھے۔ ٹرین سے ابھی اُترا ہی تھا کہ موبائل کی سکرین پر بھتیجے کا ایس ایم ایس موصول ہوا اور ٹرین کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے جلد پہنچنے پر مبارکباد دی جس پر مجھے اپنے ایک ستم ظریف دوست کا واقعہ یاد آ گیا کہ وہ ایک مرتبہ ریلوے اسٹیشن پر کسی عزیز کو لینے کیلئے گیا تو ٹرین وقت سے پہلے آ گئی، اس نے استعجاب کا اظہار کیا تو معلوم ہوا کہ اس ٹرین نے ایک دن پہلے اسی وقت پہنچنا تھا صرف چوبیس گھنٹے لیٹ ہے۔
تحریر: نجیم شاہ