سلطنتوں کے قبرستان افغانستان

afghanistan

afghanistan

جب طاقت کا بے دریغ استعمال ، ظلم و بربریت اورانتہاؤں کو چھوتی ہوئی رعونت دستور عمل بن جائے، عدل و انصاف،امن و عافیت کا پرچم لہرانے اور انسانی حقوق کے گن گانے والی خود ساختہ مہذب دنیا اِسی اصول کو زندگی کا ضابطہ قرار دے ڈالے تو پھر وحشت و درندگی کو لگام دینا ممکن نہیں رہتا، پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو اتوار 11مارچ کو افغانستان کے صوبے قندھار کے ضلع پنجوائی میں ہوا،جس میں نشے میں دھت امریکی فوجیوں نے چار گھروں میں گھس کر نو بچوں اور تین خواتین سمیت 16بے گناہ افغان شہریوں پر وحشیانہ فائرنگ کرکے نہ صرف شہید کرڈالابلکہ اطلاعات کے مطابق اِن جنونی قاتلوں نے کیمیائی مادہ چھڑک کر لاشیں بھی جلادیں،یہ درحقیقت اُسی ہارر فلم کا ایک دہشت ناک منظر تھا جو گذشتہ ایک عشرے سے امریکی ڈائریکشن میںافغانستان کی سرزمین پر فلمائی جارہی ہے ، جس میں ہر طرف بے ڈھب ،مڑی تڑی بے گورو کفن لاشیں،دورتک بکھرے انسانی اعضاء اور اُن کے بیچوں بیچ اپنے صلیبی حواریوں کے ساتھ کھڑا امریکی فلم ڈائریکٹر اپنے چہرے پر سفاکانہ مسکراہٹ سجائے ہدایات جاری کررہا ہے۔

 

اُمت ِمسلمہ کے لہو رنگ مناظر سے فلمائی ہوئی وحشت ناک مناظر سے بھرپور اِس فلم کی عکس بندی گذشتہ کئی عشروں سے دنیا کے مختلف مسلم ممالک میںجاری ہے، جس میں امریکی خونخوار درندے بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں،بھوکے بھیڑیئے پاگل کتوں کی مانند انسانی جسموں کو بھنبھوڑ رہے ہیں، مظلوم مسلمانوں کی نعشوں پر رقص ابلیس کررہے ہیں اور قصر ابیض کا مکین فلم ڈایئریکٹر اپنے چیلوں کے ساتھ گہرے رنج و غم کا اظہار اور واقعہ میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا اعلان کرکے طفل تسلیاں دے رہے ہیں،دس سال سے یہی کچھ ہورہا ہے،امریکی قاتل اپنے صلیبی حواریوں کے ساتھ مل کر قتل وغارت گری کا کھیل کھیل رہے ہیں، 7 اکتوبر2001ء سے اب تک لاکھوں افغان شہری اِس درندگی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں،مگر اِن کے قاتلوں کو دنیا کی کوئی عدالت انصاف کے کٹہرے میں لانے کی جرأت نہ کرسکی، اگر کسی کو انصاف کے کٹہرے تک لایا بھی گیا تو اُس کو قرار واقعی سزا نہ مل سکی،دنیا جانتی ہے امریکی انصاف کا دوہرا معیار ہے ،جس میںایک مسلمان عدم ثبوت و گواہ کے باوجودکڑی سے کڑی سزا کا متحق ٹہرایا جاتاہے مگر امریکی شہری ثبوت اور گواہوں کے باوجود بھی معمولی سزا کا حقدار قرار نہیں پاتا۔

 
اِس معاملے میں بھی حسب سابق وہی کچھ ہوگا جیسا پہلے ہوتا رہا ہے،لیکن ایک بات بالکل واضح ہے کہ جس بے دردی سے پاکستان،عراق ،لیبیا، شام ، افغانستان اور مسلم دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے،اُس سے ثابت ہوتا ہے امریکہ اور اُس کے صلیبی حواریوں کا مقصد اِس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مسلمانوں کے وجود کو مٹادیا جائے یا پھر انہیں اِس قدر کچل دیا جائے کہ وہ کبھی سر اٹھانے کے قابل نہ ہوسکیں،یہی کام فلسطین میںامریکہ کا لے پالک اسرائیل اور مقبوضہ کشمیر میں ہندو بنیاء کررہا ہے ،سب کا مقصد ایک ہے،اُمت مرحوم کا خاتمہ،یہی وجہ ہے کہ وہ انسانوں کو اِس طرح شکارکرتے ہیں جیسے وہ کوئی جنگلی جانور ہیں،یہ وہی فکر بیمار ہے جس کا اظہار کرتے ہوئے عراق اور افغانستان میں خدمات انجام دینے والے سابق جنرل جیمز میٹس نے کہا تھا کہ ”اِن لوگوں کو قتل کرنے سے بڑا مزا ملتا ہے۔”جنرل جیمز کے ریمارکس کی روشنی میں اِس بات کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ صابرہ ،شیتیلہ، فلوجہ،رملہ،قلعہ جنگی ، دشت لیلیٰ،بلگرام اورقندھار جیسے انسانیت سوز واقعات کیوں پیش آتے ہیں،کیوں ہاتھ پاؤں بند ھے۔

 

 

قیدیوں کے سینوں کو چھلنی کردیا جاتا ہے،کیوں مردہ انسانوں کی لاشوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے ،اُن کے جسموں پر پیشاب کیا جاتا ہے،صاف ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ تسکین طبع اور لطف اندوزی کیلئے کیا جارہا ہے اور کیوں نہ کیا جائے کہ امریکہ کی پوری تاریخ برہنہ جارحیت ،توسیع پسندانہ عزائم ، کمزوروں پر لشکرکشی اور ظلم و جبر کے خونی ابواب سے مزّین ہے،جس میں مسلمان کی جان ومال ،عزت وآبرو کی کوئی قدروقیمت نہیں۔

 

 
قندھار میں وقوع پزیر ہونے والا المناک واقعہ اِس بات کی بھی نشاندہی کرتاہے کہ افغانستان میں تعینات امریکی افواج شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور اب اِس جنگ سے راۂ فرار چاہتی ہے ، امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کیا پایا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیںکہ امریکہ اِس جنگ میں اب تک بہت کچھ گنوا چکا ہے، اخلاقی انحطاط ،معاشرتی زوال اور فوج میں بڑھتے ہوئے نفسیاتی امراض کے ساتھ اُس کی معیشت کو بھی گھن لگ چکا ہے، آج خوف کی صلیب پر لٹکی ہوئی امریکی حکومت اور عوام کے اعصاب مفلوج ہیں، ربّ کی مدد و نصرت اور میدان ِبدر کو فسانہ سمجھنے والے طاقت کے پجاریوں اور اسلحہ و بارود پر بھروسہ کرنے والوں کی زندگی میں یہ دن بھی آنا تھا کہ مٹھی بھر طالبان ناقابل تسخیر سپر پاور کا گھمنڈ خاک میں ملادیں گے، ناقابل شکست سامراجی یلغار کا رخ موڑ دیں گے،لاکھوں ڈالر پھونک کر اور ہزاروں جانیں لے کر بھی امریکہ اِس قبیلے کا کچھ نہ بگاڑ سکا، گذشتہ دس برسوں میںافغان سرزمین پر کتنا بارود برسا،کتنی بستیاں پیوند خاک ہوئیں،آگ و بارود کے اِس کھیل نے کتنے انسانوں کو بھسم کیا،کتنی عورتیں بیوہ، بچے یتیم اوربزرگ بے سہارا ہوئے، کتنے لوگ زندگی بھر کیلئے اپاہیج ہوئے ،کسی کے پاس کوئی اعدادوشمار نہیں،۔

 

 
کسی کے پاس اِن سوختہ جانوں پر گزرنے والی قیامت اور تباہ کاریوں کی کوئی تفصیل نہیں، نہ کابل کے چغہ پوش میئرکے پاس،نہ سات سمندر پار سے آئے ہوئے لشکر چنگیزکے پاس اور نہ ہی دنیا میں حقوق انسانی کا راگ الاپنے والی این جی اوز کے پاس،اِن دس برسوں میں امریکہ اور اُس کے حواریوں نے کیا کچھ نہیں کیا،اُس نے کسی تہذیبی قرینے ،احترام آدمیت،جنگی قوانین اورجمہوری روایات کا پاس نہیں رکھا،بے دست وپا افغانیوں پر کون سا حربہ نہیں آزمایا،لیکن گردوپیش سے بے خبر اور سودزیاں سے بے نیاز یہ قافلہ سخت جاں زیر نہ ہوسکا،وہ افغان تحریک مزاحمت کو نہ کچل سکا،اِس حریت کیش گروہ کی کلغی نہ جھکاسکا،وہ آج بھی زندہ اور پہلے سے زیادہ سرکشیدہ، سر بلند اور کمالِ استقامت سے معرکہ آراء ہیں ،اُن کی صفوں میں کوئی خوف وہراس کی لہر نہیں۔

 

سات سمندر پار سے افغانستان کو راکھ ڈھیر بنانے کا عزم لے کرآنے والے بھول گئے کہ طالبان کسی قبیلے اور گروہ کی نہیں ایک فلسفہ حیات کی جنگ لڑر ہے ہیں ،وقت کی منہ زور قوتوں کے خلاف حق وصداقت کی جنگ،جس کے زمانے، مقام اور میدان بدلتے رہتے ہیں،لیکن کشمکش کبھی ختم نہیں ہوتی،اِس جنگ کا جاری رہنا ہی اِس کی اصل فتح ہے،یہ لوگ اُسی اُمت مرحوم سے نسبت و حوالہ رکھتے ہیں جس کے دامن میں ابھی تک چنگاریاں سلگ رہی ہیں،جس کی اُمیدوں کی راکھ کبھی سرد نہیں ہوتی،جس کے افراد اشک ِسحرگاہی سے وضو کرتے اور رضائے ِالٰہی کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں،وہ یہ بھی بھول گئے کہ ربّ کی ذات پر بھروسہ کرنے والے یہ وہ مرد مومن ہیں جنھوں نے اپنا جینا مرنا اپنے ربّ کیلئے وقف کردیا ہے اور جن کیلئے قادر مطلق ”دشمنوں کی تدبیروں کو ایسے ہی اُن کے منہ پرالٹ دیتا ہے۔

 

مقابلے میں لاکھ تباہی و بربادی کے علمبردار اپنی تمام عسکری طاقت و وسائل بروئے کار کیوں نہ لائیں، پروپیگنڈے اورجھوٹ کے سہارے اپنی شکست خوردہ اور حواس باختہ سپاہ کوحوصلہ دینے کی کوشش کیوں نہ کرتے رہیں،مگر ڈائپر استعمال کرنے والی بزدل افواج کبھی بھی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے فاقہ کش مجاہدین کا مقابلہ نہیں کرسکتی، افغانستان کو جنگی تجربہ گاہ بنانے والا گھمنڈ ی امریکہ آج شکست خوردگی اور ذلت و رسوائی کے بھنور میں گرفتار ہے،گرداب بلا اُس کی گردن تک آپہنچا ہے،آنے والا وقت اُس کی رعونت پر خاک ڈالنے والا ہے ،صدیوں سے افغانستان کے کوہساروں پر کندہ تاریخ کہہ رہی کہ سلطنتوں کے قبرستان”افغانستان ”میں اُس کی قبر تیار ہوچکی ہے اور فلم کا آخری منظراِن فاقہ کش مجاہدین کے ہاتھوں عکس بند ہونے جارہا ہے ،بے شک میراربّ ایمان والوں کے ایک چھوٹے گروہ کو بے ایمانوں کے بڑے گروہ پر غالب آنے کی بشارت پورا کرنے والا ہے۔ تحریر : محمد احمد ترازی