پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے میں زیر حراست ممتاز قادری کو انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے ہفتہ کو سزائے موت اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔راولپنڈی کے اڈیالہ جیل میں قائم انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج نے جب اپنا فیصلہ سنایا تو ممتاز قادری بھی عدالت میں موجود تھا۔ اس موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت اقدامات کیے گئے تھے اور کئی درجن پولیس اہلکار جیل کے باہر تعینات تھے۔مقدمے کی سماعت کے دوران ماسوائے استغاثہ اور دفاع کے وکلا کے کسی غیر متعلقہ شخص کو عدالت میں داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ممتاز قادری کے وکیل شجاع الرحمن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے موکل کو قتل اور دہشت گردی کے دو مختلف مقدمات میں دو مرتبہ سزائے موت اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے قتل کا اعتراف کرنے والے ممتاز قادری پر فرد جرم رواں سال 14 فروری کو عائد کی گئی تھی۔ عدالت نے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ ممتاز قادری پہلے ہی اپنے جرم کا اقرار کر چکا تھا اور کسی بھی شخص کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنے طور پر کسی کے بارے میں یہ فیصلہ کر لے کے فلاں شخص توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے یا نہیں۔ممتاز قادری اس سزا کے خلاف سات روز میں اپیل کر سکتے ہیں۔انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کی طرف سے گورنر پنجاب کے قتل میں ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف راولپنڈی سمیت بعض دیگر علاقوں میں مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کے احتجاج کی بھی اطلاعات ملی ہیں۔ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چئیرپرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کیوں کہ ممتاز قادری اعتراف جرم کر چکا تھا اس لیے بظاہر یہ سزا یقینی تھی۔سلمان تاثیر کو چار جنوری کو اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں ان کے سرکاری محافظ ممتاز قادری نے اس وقت گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا جب وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ کھانا کھا کر گھر واپس جانے کے لیے اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔قتل کے بعد قادری نے خود کو سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ اس نے گورنر کو توہین رسالت کے خلاف قانون میں تبدیلی کی حمایت کرنے پر قتل کیا۔گرفتاری کے بعد ممتاز قادری نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے بھی گورنر پنجاب کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے اسے اپنا ذاتی فعل قرار دیا تھا۔