دادو : اندرون سندھ ایل بی او ڈی اور دیگر سیم نالوں کے شگاف پر نہ ہونے سے مزید کئی علاقے زیر آب آگئے۔ پانی کی نکاسی نہ ہونے سے وبائی امراض سے ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں۔ اندرون سندھ بارش کو رکے دس سے زائد دن گزرنے کے باوجود متاثرہ علاقوں سے پانی نہیں نکالا جاسکا۔ کئی علاقوں میں گیسٹرو اور دیگر امراض سے ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں۔ ٹنڈو الہ یار کے تعلقہ چھنڈو مری میں سانگھڑ سونی سیم نالے کا پانی داخل ہونے سے متعدد دیہات زیر آب آگئے۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے سے لوگ گدھا گاڑیوں کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل ہورہے ہیں۔ ضلع ٹھٹھہ کے علاقے مکلی میں متاثرین سیلاب کے خیمے میں اچانک آگ لگ گئی۔ جس کے باعث سامان جل کر خاکستر ہو گیا تاہم کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔ ضلع سانگھڑ میں بارش اور سیلاب کی تباہی کے مناظر ہر جگہ نظر آرہے ہیں۔ شہروں میں موجود کئی فٹ کھڑے پانی اور اس سے اٹھنے والے تعفن نے پریشان حال متاثرین کی زندگی مزید اجیرن کردی ہے۔میرپورخاص میں بارش اور ایل بی او ڈی سیم نالے میں شگاف سے کئی دیہات زیر آب گئے۔ نقل مکانی کے باعث کئی علاقے ویران ہو گئے۔ متاثرین نے پانی کی عدم نکاسی کی بڑی وجہ پران کینال پر تجاوزات کو قرار دیا ہے۔ مٹھی میں کلوئی کے قریب ایل بی او ڈی میں پڑنے والے شگاف پندرہ روز بعد بھی پر نہیں ہوسکے۔ جس کی وجہ سے مزید بیس دیہات زیر آب آگئے۔ علاقے میں پاک آرمی کا ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ ریلیف کیمپوں اور ننگر پارکر کے دیہات میں گیسٹرو اور ملیریا تیزی سے پھیل رہا ہے۔سندھ کے بارش اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پاک بحریہ کا ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ انچاس زولو بوٹس، سینتالیس او بی کشتیاں، دو ہیلی کاپٹر اور تین ایمبولینس امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے پانی کی نکاسی کیلئے پمپس بھیجے گئے ہیں۔ پاک بحریہ، شیخانی فاونڈیشن، دھورا جی ایسوسی ایشن اور دیگر تنظیموں کی جانب سے کیڈٹ کالج سانگھڑ میں متاثرین میں دو کروڑ روپے کا سامان اور خیمے تقسیم کئے گئے۔