سوشلسٹ امیدوار فرانسوا اولاند فرانس کے نئے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔
انہوں نے اتوار کو فرانس میں صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے میں باون فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے حریف موجودہ صدر نکولس سرکوزی اڑتالیس فیصد ووٹ حاصل کر پائے۔
نکولس سرکوزی نے شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ’فرانسوا اولاند فرانس کے صدر ہیں اور ان کی عزت لازم ہے۔‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخاب کے نتائج کا پورے یوروزون پر گہرا اثر ہو گا۔
فرانسوا اولاند نے کہا ہے کہ یوروزون میں حکومتوں کے قرضوں پر معاہدہ کا ازسرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک اس وقت بڑے بحران کا شکار ہے اور اسے تبدیلی کی ضرورت ہے۔
اولاند فرانسیسی صدر فرانسوا متراں کے بعد صدر منتخب ہونے والے پہلے سوشلسٹ ہیں۔ انہوں نے فتح کے بعد مرکزی فرانس میں اپنے انتخابی گڑھ تیول میں اپنے حمائتیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’انہیں فخر ہے کہ وہ لوگوں کو دوبارہ امید دلانے کے قابل ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ یورپی یونین مالی کوششوں کا ازسرِ نو جائزہ لینے کے اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے انہیں کفایت شعاری سے ترقی کی طرف لانے کی کوشش جاری رکھیں گے۔ ’یورپ ہمیں دیکھ رہا ہے، کفایت شعاری اب صرف ایک حل نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ وہ فرانس کی نوجوان نسل کے صدر ہیں۔ ’تم وہ تحریک ہو جو پورے یورپ اٹھ رہی ہے۔‘
اپنی تقریر کے بعد اولاند پیرس چلے گئے۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران سوشلسٹ امیدوار نے بڑی کارپوریشنز اور ان افراد پر ٹیکس بڑھانے کا وعدہ کیا تھا جو سالانہ ایک ملین یورو سے زیادہ کماتے ہیں۔
وہ کم سے کم اجرت کو بھی بڑھانا چاہتے ہیں، ساٹھ ہزار مزید اساتذہ کو ملازمت دینا چاہتے ہیں اور کچھ ورکرز کی ریٹائرمنٹ کی عمر کو باسٹھ سال سے کم کر کے ساٹھ سال کرنا چاہتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی مطابق سنھ 2007 سے لیکر اب تک اقتدار میں رہنے والے سرکوزی نے اپنی جماعت سے متحد رہنے کی اپیل کی ہے، لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ جون کے پارلیمانی انتخابات میں پارٹی کی رہنمائی نہیں کریں گے۔
اے ایف پی کے مطابق انہوں نے کہا: ’متحد رہیں۔ ہمیں مقننہ کی جنگ جیتنا ہے۔ میں اس مہم کی سربراہی نہیں کروں گا۔‘
یہ 1958 کے بعد صرف دوسری مرتبہ ہوا ہے کہ صدر کے عہدے پر موجود شخص دوبارہ منتخب نہیں ہو سکیں ہیں۔
انتخابات کے پہلے مرحلے میں سوشلسٹ فرانسوا اولاند کو اٹھائیس اعشاریہ چھ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ صدر نکولس سرکوزی نے چھبیس اعشاریہ دو فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔
بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور اقتصادی بحران ہی اس انتخابی مہم کے اہم موضوعات رہے۔
دونوں صدارتی امیدواروں نے جمعہ تک اپنی انتخابی مہم چلائی اور اس دوران انہوں نے بدھ کو ایک ٹی وی مباحثے میں بھی شرکت کی جسے ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ سے زائد افراد نے براہِ راست دیکھا۔