سپریم کورٹ (جیوڈیسک)سپریم کورٹ میں توہین عدالت ایکٹ کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا نئے قانون کی تشکیل میں آئینی حوالے نہیں دیئے گئے۔ توہین عدالت ایکٹ دو ہزار بارہ کے خلاف درخواستوں گزاروں نے پانچ رکنی بنچ کے روبرو دلائل جاری رکھے۔
چیف جسٹس نے سماعت کی ابتدا میں ہدایت کی کوئی نئی بات ہو تو بتائی جائیں پرانی باتیں نہ دہرائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا قانون کی تشکیل میں آئینی حوالے نہیں دئیے گئے۔ پارلیمنٹرین جب نیا قانون بنائیں تو آئینی حوالوں کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ اس کیس کو وزیر اعظم کے معاملے سے نہ جوڑا جائے۔
جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس میں کہا پارلیمنٹرین عوام کے ملازم ہیں جو عوام سے تنخواہ لیتے ہیں۔ آئین ان کے پاس مختارنامہ ہے جس کے تحت انہیں کام کرنا ہے۔ آئین کہتا ہے جس نے توہین عدالت کی اس کے خلاف کارروائی کرو۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا آئین کا آرٹیکل دو سو چار کسی کو استثنی نہیں دیتا۔