اسلام آباد (جیوڈیسک)سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا، الطاف حسین کو ذاتی حیثیت میں 7 جنوری کو پیش ہونے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کی،چیف جسٹس نے کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے بتایا کہ الطاف حسین نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کراچی میں ںئی حلقہ بندیوں کے فیصلے اور ججوں پر تنقید کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جلسے سے خطاب میں الطاف حسین نے کہا تھا کہ ججوں کو معافی مانگی چاہیے۔
جلسہ میں استعمال کی گئی زبان عدالتی کاموں میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف بھی تھی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ الطاف حسین نے کراچی میں جلسہ کے دوران جو الفاظ استعمال کیئے وہ غلط چیز ہے۔ الطاف حسین کے الفاظ نہ صرف توہین آمیز بلکہ دھمکی آمیز بھی ہیںِ۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم یہاں بیٹھ کر کام نہ کریں ایم کیو ایم رہنما نے قابل احترام ججز کیلئے غیر ناسب الفاظ استعمال کیئے ، کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے عدالتی فیصلے پر نہ کوئی سوال اٹھے نہ کوئی نظر ثانی پٹیشن آئی، ہمارے احکامات جاری کرنے کے بعد بھی فیصلے پر عمل نہیں ہوا، حالیہ عدالتی بنچ اس لیئے بنایا کہ فیصلے پر عملدرآمد کیا جا سکے، چیف جسٹس نے پی ٹی اے کی جانب سے ٹیلی فونک خطاب کی اپ لنکنگ کا غیر مناسب استعمال کیا گیا ، سپریم کورٹ نے آئندہ سماعت پر پیمرا کو الطاف حسین کی تقریر کا متن عدالت میں پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔
عدالت نے الطاف حسین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں 7 جنوری کو پیش ہونے کا حکم بھی دیا۔ نوٹس آئین کے آرٹیکل 204 اور توہین عدالت آرڈیننس 2003 کے تحت جاری کیا گیا، عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ الطاف حسین عدالت میں آ کر وضاحت دیں کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
عدالت نے وزارت خارجہ ،فاروق ستار، چیف سیکریٹری اور آئی جی سندھ کو بھی نوٹسز جاری کیے، کیس کی سماعت 7 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔