سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کراچی بد امنی کیس میں حکومت کی رپورٹس مستردکرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ شہری امام ضامن باندھ کر گھروں سے نکلیں، کراچی بدامنی کیس کی سماعت آج پھر ہو گی۔
گذشہ روز 4 ر کنی لارجر بینچ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران حکومتی رپورٹس پیش کیں جس پرعدم اطمنان کا اظہار کرتے ہوئے لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ اگر لوگوں کی زندگی محفوظ نہیں ہیتوبتائیں کون ذمے دارہے۔ جسٹس جوادخواجہ نے کہا کہ 22 ہزار اشتہاری اورمفرورملزم کراچی میں گھوم رہے ہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس میں کہا کہ لگتا ہے کہ انتظامیہ نے طے کر لیا ہے کہ جو ملزم شہریوں کی جان ومال اورعزت کونقصان پہنچا رہا ہے اسے نہیں پکڑنا۔ پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان نے بینچ کو بتایا کہ اشتہاری ملزموں کی تعداد 22 ہزار 535 ہے۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دئیے کہ اگرایسا ہے توشہری گھر سے نکلنا چھوڑ دیں۔ اشتہار دے دیا جائیکہ شہری اپنے رسک پر باہر نکلیں یا پھر امام ضامن باندھ کر نکلیں۔ آئی جی پولیس نے عدالت عظمی کو بتایا کہ ہم نے 3 ہزارسے زائد اشتہاری جبکہ 23 ہزار سے زائد مفرور ملزموں کو گرفتار کیا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نیسوال کیا کہ کتنے تفتیشی افسر ہیں ، آئی جی پولیس نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2 ہزار ہونگے جسٹس جواد خواجہ نے کہاکہ مان لیں یہ ایک ناممکن ٹاسک ہے اورمعاملات آپکے کنٹرول سے نکل گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ پولیس کیلئے ناممکن ہے کہ وہ جرائم پر قابو پا سکے۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیئے کہ جہاں شہری خوف اور دہشت کا شکار ہوں وہاں شفاف انتخابات کیسے ممکن ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہر ہائی پروفائل کیس کا تفتیشی افسر انسپکٹر مبین کو بنا دیا جاتا ہے جو زخمیوں سے بھی پیسے لے لیتا ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ 18 سال سے رینجرز تعینات ہے، اتنا بجٹ لے رہی ہے کیا فائدہ ، ایس ایس پی نیاز کھوسو نے کہا کہ میں لکھ کر دیتا ہوں کہ اگر اسلحہ آرڈیننس اور گواہوں کے تحفظ کا قانون بن جائے تو ایک ماہ میں امن ہو جائے گا۔
سیکرٹری ورکس سندھ لارجر بینچ کو بتایا کہ انھوں نے ڈیپوٹیشن اور آؤٹ آف ٹرن پروموشن کی سمری بل پیش کرنے کیلئے وزیر اعلی کوارسال کر دی تھی۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ آؤٹ آف ٹرن پروموشن افسران کو آرڈیننس کا تحفظ حاصل ہے۔عدالت نے کہا کہ ہم کل سن کو آرڈر جاری کریں گے۔
دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئے کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کہہ چکے ہیں کہ جو عدالتیں کہتی ہیں اسمبلی کرنے کو تیار نہیں ، جبکہ پولیس افسران کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے کے بعد ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہوا ہے۔