آسٹریا کے فلیکس بام گاٹنر ایسے پہلے سکائی ڈائیور ہیں جنہوں نے خلا کے نزدیک جا کرایک لاکھ اٹھائیس ہزار فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگائی اور زمین تک کا سفر ایک ہزار 342 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پورا کر کے آواز کی رفتار کو توڑا ہے۔
زمین کی جانب یہ سفر انہوں نے دس منٹ میں طے کیا۔
43 سالہ کارٹنر نے جب غبارے سے زمین کی جانب چلانگ لگائی تو ویڈیو کیمرے سے اس کی ریکارڈنگ کی گئی۔ آخری چند ہزار فٹ پر آکر انہوں نے پیراشوٹ کھولا۔
فلیکس نے سب سے پہلے 2005 میں اس ریکارڈ کو توڑنے کے بارے میں سوچا اور اس کے بعد سے وہ اس سے متعلق تکنیکی اور مالی مشکلات سے دو چار رہے۔
ان کا یہ چیلنج خطروں سے بھرا تھا۔
ایک لاکھ بیس ہزار فٹ کی بلندی پر ہوا کا دباؤ دو فیصد سے بھی کم تھا اور آکسیجن کے بغیر وہاں سانس لینا ممکن نہیں تھا۔
فلیکس بام گاٹنر کی ٹیم نے ان کے لیے ایک خصوصی کیپسیول تیار کیا جس نے انہیں اوپر ہیلیم غبارے تک لیجانے میں مدد کی اور نیچے چھلانگ لگاتے وقت انہوں نے ایک پریشر سوٹ پہنا جو ُاس کمپنی نے تیار کیا تھا جو خلابازوں کے کپڑے تیار کرتی ہے۔
حالانکہ فیلیکس کی یہ چھلانگ ان کے دوسرے کسی سٹنٹ کی طرح ہی لگ رہی تھی لیکن ان کی ٹیم کا کہنا ہے کہ ان کی اس چھلانگ کی سائینٹفک اہمیت بھی ہے۔
تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ فیلیکس کی چھلانگ نے بلندی پر پیراشوٹ کے استعمال سے متعلق اہم جانکاری مہیا کرائی ہے اور اس واقعہ سے جو سبق حاصل ہوا ہے اس سے ہنگامی حالات میں خلائی جہازوں سے نکلنے یا کرہء قائمہ سے گزرنے سے متعلق نئے نظام کو بنانے میں مدد ملے گی۔
یہ تمام تفصیلات خلائی ادارے ناسا اور اس اس کے خلائی طیارے بنانے والوں تک پہنچا دی جائیں گی۔
اس ٹیم کے میڈیکل ڈائریکٹر جان کلارک ہیں جنہوں نے 2003 میں کولمبیا حادثے میں اپنی اہلیہ کو کھو دیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ فلیکس بام گاٹنر کا تجربہ مستقبل میں مشکل حالات میں خلابازوں کو بچانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
اس طرح انہوں نے 1960 میں آسمان میں سب سے بلندی سے اترنے کا ریکارڈ توڑا ہے۔