بڑے چوہدری صاحب سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی گردانے جاتے ہیں ۔ اُن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ فوج کی سوچ کے مطابق سیاست کرنے کے ماہر ہیں۔ اس قدر غریب پرور ہیں کہ انتخابی نشان بھی غریبوں والا ہے اور زبان بھی۔ کیونکہ غریب کی بولی کسی کی سمجھ میں نہیں آتی یا پھر کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔ سائیکل اور کالے چشمے سے پہچان بنانے والے بڑے چوہدری صاحب پہلے بولتے نہیں، جب بولتے ہیں تو اُن کی بات سمجھ نہیں آتی اور جو بات سمجھ آتی ہے وہ انتہائی گہری ہوتی ہے۔ حافظ حسین احمد، شیخ رشید احمد اور پیر پگاڑا کی طرح وہ بھی کبھی کبھار بڑے لطیف انداز میں طنز و مزاح کرتے ہیں۔ اُن کے ”رات گئی بات گئی” اور ”مٹی پائو ”جیسے طنز و مزاح سے بھرپور جملے اکثر ذرائع ابلاغ کی زینت بنے رہتے ہیں۔ بڑے چوہدری صاحب سیاست کے سب پھڈے جانتے ہیں اس لیئے عمران خان کے لاہور جلسے کے بعد سب سے زیادہ موزوں اور ناقابل فراموش بیان بھی چوہدری شجاعت حسین نے ہی دیا ہے۔ کہتے ہیں ہماری جماعت کے کچھ ساتھی جو پہلے ”کلین” ہونے کیلئے ن لیگ میں جانا چاہتے تھے لیکن تحریک انصاف کے جلسے کو دیکھ کر اب وہ ”ڈرائی کلین” ہو کر عمران خان کیساتھ جانا چاہتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ گئے کہ راولپنڈی میں سیاست دانوں کی ڈرائی کلیننگ کا ایک چھوٹا سا پلانٹ لگا ہوا ہے جہاں کئی سیاست دانوں کی ڈرائی کلیننگ ہوگی اور پھر وہ پاک ہو کر تحریکِ انصاف کا حصہ بن جائیں گے۔ میل کچیل والے کپڑے دھونے اور انہیں اِستری کرنیوالے شخص کو دھوبی کہا جاتا ہے اور جہاں ان کپڑوں کی دُھلائی ہوتی ہے وہ دھوبی گھاٹ یا ڈرائی کلیننگ پلانٹ کہلاتا ہے۔ چوہدری صاحب نے بڑے لطیف انداز میں انتہائی گہری بات کر ڈالی۔ جس تیزی سے دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے موجودہ اور سابق ارکان اسمبلی، وفاقی اور صوبائی وزرائ، ضلع ناظمین اور دیگر عہدیدار تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پسِ پردہ نہ صرف تحریکِ انصاف کو تیسری بڑی قوت بنانے کیلئے کام شروع ہو چکا ہے بلکہ عمران خان کو آئندہ کی حکومت کیلئے گرین سگنل بھی مل چکا ہے۔ جس تیز رفتاری سے سیاست دان اس جماعت کا رُخ کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈرائی کلیننگ پلانٹ کا مرکزی دفتر کھلنے کے بعد اب مختلف علاقوں میںاس کی شاخیں بھی کھلنا شروع ہو گئی ہیں جہاں سیاست دان ”ڈرائی کلین” ہو کر دھڑا دھڑ تحریک انصاف میں آ رہے ہیں ۔اس سیاسی دھوبی گھاٹ کی تو سب داد دیتے ہیں کہ اس میں ایسے سیاست دانوں کی بھی دُھلائی ہو رہی ہے جن پر کرپشن کے بے شمار چارجز ہیں۔ اس دھوبی گھاٹ میں کئی سیاست دان دھلائی کے بعد پاک ہو چکے ہیں اور یہاں سیاست دانوں کیساتھ ساتھ سابق بیورو کریٹس کی بھی لائنیں لگی ہوئی ہیں کہ ہم بھی اس دھوبی گھاٹ سے دُھل کر کرپشن سے پاک ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لیں۔ ایک کامیاب جلسہ کرنا اور الیکشن میں کامیابی دو مختلف چیزیں ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ عمران خان نے مینارِ پاکستان پر ایک بڑے جلسے کا چیلنج کامیاب کر دکھایا۔باوجود اسکے کہ تحریکِ انصاف کے کارکنان کا تجربہ اور عمر دونوں ہی کم ہیں اور اسکے علاوہ ان کے پاس کوئی حکومتی ہتھکنڈے نہیںتھے یعنی نہ ان کا کوئی ایم این اے یا ایم پی اے تھا اور نہ ہی اس جلسے کو کامیاب بنانے کیلئے سرکاری مشینری استعمال کی گئی۔ ایسے میں یہ کارنامہ واقعتا سراہنے کے لائق ہے مگر اب دیکھنا یہ ہوگا کہ تحریک انصاف مستقبل میں خود کو رول ایریا میں کیسے متحرک کرتی ہے اور کیسے تنظیم سازی کرتی ہے اور اب اسکے بعد اگلا جو جلسہ ہوگا وہ عمران خان کیلئے اس سے بھی بڑا چیلنج ہوگا۔تحریک انصاف کو اب تک صرف خیبرپختونخواہ اور پنجاب سے کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے جبکہ سندھ اور بلوچستان میں جماعت کیا کارکردگی دکھاتی ہے اس کا اندازہ عمران خان کے کراچی اور کوئٹہ کے جلسوں کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا۔مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کی تحریک انصاف میں شمولیت سے آئندہ الیکشن میں کامیابی کی راہ تو ہموار ہو رہی ہے لیکن ایسا تاثر بھی مل رہا ہے کہ اس طرح یہ جماعت بہت جلد اپنی انفرادیت کھو دے گی۔ آئندہ انتخابات میںبھرپور کامیابی کیلئے عمران خان کو اُمیدواروں کے چنائو میں بہت زیادہ احتیاط برتنا ہوگی کیونکہ اس وقت بہت سے موقع پرست سیاست دان ”ڈرائی کلین ” ہو کر دھڑا دھڑ تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں۔فی الحال ایسا لگتا ہے کہ عمران خان دیمک زدہ لکڑیوں سے تلوار بنانے میں مصروف ہیں۔ خان صاحب کو چاہئے کہ اچھے کرداروں کو تلاش کریں اور بے ضمیر سیاہ ست دانوں سے خود کو بچائیں کیونکہ کسی بھی انسان کے اچھا یا بُرا ہونے کا پتہ اس بات سے چل جاتا ہے کہ اس کے ارد گرد یعنی دوست احباب لوگ کیسے ہیں۔ عمران خان ابھی سیاست میں نئے ہیں مانا کہ ان کا جذبہ نیک ہے لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس وقت جو سیاست دان عمران کو سپورٹ کر رہے ہیں اُن میں بہت سے کرپٹ عناصر بھی شامل ہیں اور دوسری پارٹیوں میں بھی رہ چکے ہیں۔اس لیئے میرا نہیں خیال کہ عمران خان اُصولوں کی سیاست کر رہے ہیں بلکہ وہ بھی دوسروں کی طرح صرف اقتدار چاہتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں عمران خان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سے بہتر آپشن ہیں لیکن ایسا نہ ہوکہ اقتدار میں آنے کے بعد چونسٹھ سالہ گند کا بہانہ کرکے تبدیلی اور انقلاب کی باتیں دم توڑ جائیں۔ اس لیئے عمران خان کو پہلے سے ہی اچھے اور پڑھے لکھے لوگوں کو تحریک انصاف میں شامل کرنا ہوگا ورنہ کسی انقلاب کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ عمران خان کو میرا صائب مشورہ بھی یہی ہے کہ وہ عوام کو صاف ستھری قیادت فراہم کریں ورنہ جس دن ”برادریوںکے بڑے” تحریکِ انصاف میں شامل ہو گئے ”اُسی” دن یہ جماعت الیکشن بھی جیت جائے گی لیکن پھر نہ ”تحریک” رہے گی اور نہ ہی ”انصاف” ہوگا۔ تحریر: نجیم شاہ