موسم سرما کے شروع ہوتے ہی جہاں سردی میں اضافہ ہو گیا ہے وہاں ملک کا سیاسی موسم انتہائی گرم ہے۔ حالیہ ہونے والے ایک سروے کے مطابق اکیاون فیصد پاکستانی سیاست میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ اکیاون فیصد لوگ شاید سرد علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ بقیہ لوگ گرم علاقوں میں رہتے ہیں اس لیئے سیاست سے بھی دور ہیں۔ اس بار سیاسی گرما گرمی کا مرکز اسلام آباد اور لاہور ہیں۔ ایک جانب سے ”شیر” للکار رہا ہے جبکہ دوسری طرف سے ”تیروں” کی بارش ہو رہی ہے۔ جہاں ”گو زرداری گو” کے نعرے لگ رہے ہیں وہیں ”گو نواز جدہ گو” کی صدائیں بھی بلند ہو رہی ہیں۔ ایک طرف سے حکومت مخالف ریلیاں نکل رہی ہیں جبکہ دوسری طرف سے حمایت میں ریلیاں منعقد ہو رہی ہیں۔ شہباز شریف صدر آصف علی زرداری کو اُلٹا لٹکانا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف سے شریف برادران کو ڈینگی برادرز کے خطاب مل رہے ہیں۔ جہاں ملک کے سیاسی اُفق پر احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں نے سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے وہیں سیاسی قائدین کے طرز تکلم پر عوامی حلقوں میں مایوسی کا اظہار بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ موجودہ سیاسی ماحول کی بدولت سورج نکلنے سے قبل ہی موسم خاصا گرم ہو جاتا ہے ورنہ اس مہینے اس قدر سردی ہو تی ہے کہ لوگ سویٹرز تک پہننا شروع کر دیتے ہیں۔ سینٹ کے الیکشن قریب آتے ہی سیاسی ماحول میں ایک بار پھر گرما گرمی شروع ہو گئی ہے۔یہ الیکشن آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں پارٹی پوزیشن واضح کرنے میں انتہائی مددگار ثابت ہونگے۔ اس وقت سینٹ میں پیپلز پارٹی ستائیس ارکان کے ساتھ پہلے، مسلم لیگ ق اکیس ارکان کے ساتھ دوسرے، جمعیت علمائے اسلام (ف) دس ارکان کے ساتھ تیسرے جبکہ نواز لیگ سات ارکان کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ پیپلز پارٹی کی ہر ممکن کوشش ہے کہ سینٹ الیکشن میں اس بار بھی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تاکہ مستقبل میں حکومت بنانے کا راستہ ہموار ہو سکے۔ ان انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کی حکومت پانچویں سال میں داخل ہو جائے گی اور پھر جون میں آخری بجٹ بھی پیش کرے گی۔ یہ آخری سال پیپلز پارٹی کی حکومت کیلئے ایک امتحان ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت آخری بجٹ ایسا پیش کرے گی جس سے عوام کو ریلیف ملے گا، مہنگائی میں کمی واقع ہوگی، لوگوں کو روزگار کے مواقع دیئے جائیں گے، سرکاری ملازمین کی ہمدردیاں حاصل کی جائیں گی، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوگا اور پھر عوام یہ سوچ کر پیپلز پارٹی کو دوبارہ مسندِ اقتدار پر بٹھا دے گی کہ اسکے دور میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں اور یوں ایک بار پھر پیپلز پارٹی اور اتحادیوں کی مخلوط حکومت بن جائے گی جبکہ دودھ اور شہد کی نہروں سے مستفید ہونے والی بھولی عوام آئندہ عام انتخابات کے بعد ایک بار پھر خوابوں کی دنیا میں چلی جائے گی۔ اس وقت ملکی سیاسی اُفق پر جو کھچڑی پَک رہی ہے اس سے سیاست میں دلچسپی رکھنے والا ہر فرد یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ آئندہ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گا یا وقت سے پہلے ہوں گے یا پھر سیاست دانوں کا بوریا بستر ہی گول کر دیا جائیگا۔ حکومت کے خلاف ریلیاں نکل رہی ہوں یا حمایت میں لیکن ایک بات طے ہے کہ ابھی سے انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے ۔ ایک طرف عمران خان اور سینٹ الیکشن شریف برادران کیلئے خوفناک حقیقت بن رہے ہیںجبکہ دوسری جانب ن لیگ اس کوشش میں ہے کہ سینٹ کے انتخابات سے قبل ہی مرکزی حکومت کا خاتمہ ہو یا پھر پنجاب اسمبلی توڑ کر ان انتخابات کا راستہ روکا جا سکے لیکن دونوں صورتوں میں فی الحال نواز لیگ کیلئے کسی کامیابی کی اُمید دکھائی نہیں دیتی کیونکہ ق لیگ اور ایم کیو ایم کے اتحادی ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی پوزیشن مستحکم ہے جبکہ پنجاب اسمبلی ٹوٹنے کی صورت میں وہ فوری ضمنی انتخابات کرانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور ق لیگ آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں بھی اتحادی ہیں ۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ گو زرداری گو کا نعرہ غیر آئینی ہے اور سینٹ الیکشن، عمران خان کی مقبولیت اور پانچواں بجٹ شریف برادران کی پریشانی ہیں۔ ڈرون حملوں کیخلاف مظاہرے اور امریکہ مخالف بیانات کے بعد سے عمران خان کی مقبولیت کا گراف کافی بُلند ہو چکا ہے اور پنجاب میں وہ ن لیگ کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف بھی واپسی کیلئے پَر تول رہے ہیں جبکہ ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ن لیگ کی نہیں بنتی۔ یوں آئندہ عام انتخابات میں ہر طرف سے نواز لیگ کے لیئے خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ پنجاب جسے ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے لیکن اس بار عمران خان پوری تیاری کیساتھ جلوہ گر ہو رہے ہیں۔ وہ اپنی ریلیوں کے ذریعے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی اعلیٰ قیادت کو ٹارگٹ کر رہے ہیں لیکن اُن کی سیاست کا محور بھی پنجاب ہے۔ عمران خان ہاریں یا جیتیں دونوں صورتوں میں نقصان نواز لیگ کا ہے اور اس کا بھرپور فائدہ پیپلز پارٹی اور ق لیگ کو پہنچے گا۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ مینارِ پاکستان میں عمران خان کے جلسے کو کامیاب کرانے کیلئے پیپلز پارٹی اور ق لیگ نے بھرپور کردار ادا کیا۔ دوسری طرف جنوبی پنجاب کو سرائیکی صوبہ بنانے کے اعلان کے بعد سے ان علاقوں میں پیپلز پارٹی اور لیگ کی حمایت میں اضافہ ہوگا اور دونوں جماعتوں کی آئندہ الیکشن مہم ہزارہ اور سرائیکی صوبے کے گرد گھومے گی۔ مشرف دور میں شریف برادران کی جلاوطنی کے بعد مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی اور جدہ سے واپسی پر نواز لیگ نے بھگوڑوں کو واپس لینے سے صاف انکار کر دیا تھا لیکن موجودہ سیاسی تنہائی کے بعد نواز لیگ کی قیادت ق لیگ کے اراکین کو واپس لینے پر آمادہ ہو گئی ہے۔ نواز لیگ کی قیادت اپنی سیاسی تنہائی سے اس قدر خوفزدہ دکھائی دے رہی ہے کہ اس کے قائدین نے یہ تک کہہ دیا کہ قومی مفاد میں پنجاب حکومت کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرینگے۔ تحریر: نجیم شاہ