شام کی سرحد کے نزدیک مختوم مسجد میں ظہر کا وقت ہے ۔ لبنانی امدادی کارکن شام میں تشدد سے فرار ہو کر آنے والے پناہ گزینوں میں امدادی سامان تقسیم کر رہیہیں۔ ساٹھ سالہ علی محمد الکردی دو مہینے پہلے، صرف تن کے کپڑوں کے ساتھ یہاں آئے تھے۔ شامی فوجیوں نے ان کے گھر پر حملہ کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے ان کے خاندان کے پانچ نوجوانوں کو ہلاک کر دیا اور ان کی لاشیں مسخ کر دیں۔انھوں نے کہا کہ جب تک شام کی حکومت ختم نہیں ہو جاتی وہ یہیں رہیں گے، اور اگر حکومت ختم نہیں ہوتی تو وہ یہیں اپنی جان دے دیں گے۔ کوئی ملک، کوئی قوم ہماری جد و جہد کی مدد نہیں کر رہی ہے ۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ ہم یہیں اجتماعی خود کشی کر لیں۔انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ا ب تک اندازا 1,700 افراد اس عوامی تحریک میں ہلاک ہو چکے ہیں اور 3,000 لا پتہ ہیں۔ شامی حکومت کہتی ہے کہ وہ مسلح دہشت گردوں کا پیچھا کر رہی ہے جب کہ حکومت کے مخالف گروپ کہتے ہیں کہ شام میں صرف سرکاری فوجوں اور ملیشیاوں کے پاس ہی اسلحہ ہے ۔عبداللہ طاسی عطیات دینے والے ایک مقامی گروپ یوتھ فار ڈویلپمنٹ اینڈ فری ایجوکیشن کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ وہ کہتیہیں کہ اس علاقے میں شامی پناہ گزینوں کی تعداد تقریبا 5,000 ہے ۔ جب وہ یہاں پہنچے تھے تو ان کا خیال تھا کہ وہ یہاں چند روز سے زیادہ نہیں رہیں گے۔طاسی کہتے ہیںلیکن دن بڑی تیزی سے گذرتے جا رہیہیں اور اب ان کا خیال ہے کہ انہیں یہاں بہت دن تک رہنا پڑے گا۔ کچھ لوگوں نے مقامی لوگوں کے ساتھ گھلنا ملنا شروع کر دیا ہے، اور بہت سے لوگ یہاں سے دور دراز گاں میں جانے لگے ہیں۔مسجد کے قریب ہی ایک موبائیل شفاخانہ ہے جہاں نصف درجن عورتیں جمع ہیں۔ میڈیکل اسسٹنٹ قاسم ایوبی کہتے ہیں کہ پناہ گزینوں کی بیشتر بیماریاں عام جیسی ہیں جیسے فلو، لیکن ذہنی طور یہ لوگ سخت صدمے سے دو چار ہیں۔ ان لوگوں کی زندگی سے سکھ چین ختم ہو گیا ہے ۔ ذہنی طور پر یہ تھک چکے ہیں۔ یہ سخت خوفزدہ ہیں، خاص طور سے انہیں یہ ڈر ہے کہ کہیں ان کی فلم نہ بنا لی جائے۔ تینتیس سالہ امِ حمزہ کی گود میں ان کا بچہ ہے اور انھوں نے شال سے اپنا چہرہ ڈھانپ رکھا ہے ۔ خوف کی وجہ سے وہ اپنا پورا نام نہیں بتاتیں۔امِ حمزہ ایک مہینہ پہلے حمص میں اپنا گھر چھوڑ کر یہاں آئی تھیں کیوں کہ ان کے سات بچے سخت خوفزدہ تھے۔ وہ کہتی ہیںانشااللہ ہم ضرور واپس جائیں گے کیوں کہ ہمارا ارادہ مضبوط ہے ۔ ہم اپنی آزادی چاہتے ہیں۔ ہم دوسرے لوگوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں۔ ہم کسی سے نفرت نہیں کرتے لیکن ہم پر ظلم ڈھایا جاتا ہے ۔ ہم اس ظلم سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں قربانیاں دینا پڑیں گی، ہم میں سے بہت سے ہلاک ہو جائیں گے، لیکن ہم اس کے لیے تیار ہیں۔لندن کے کیتھم ہاس کے ندیم شاہدی کہتے ہیں کہ شام میں ایک عرصے سے لاوا اندر ہی اندر پک رہا تھا۔ مسٹر بشار اور اس سے پہلے ان کے والد حافظ الاسد کی حکومت جو 40 سال سے قائم ہے، لوگوں کو کوئی اور متبادل راستہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ لیکن جب ایک بار اس کی کمزوریاں ظاہر ہو جاتی ہیں تو پھر اس کا زوال نا گزیر ہو جاتا ہے۔لوگ جاگ گئے اور انہیں احساس ہوا کہ ان کے پاس ایک شخص اور اس کے خاندان اور اس کے حاشیہ برداروں کی آمریت تلے ، اور ایسی حکومت کے تحت رہنے کے علاوہ جس میں ان کی کوئی آواز نہیں ہے، ایک متبادل راستہ بھی ہے ۔ایک دفعہ لوگوں کو یہ احساس ہو گیا تو پھر کوئی ان کا راستہ نہیں روک سکتا۔ایک نوجوان کھانے کی تقسیم کے انتظامات دیکھ رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کا نام حسن الحساد ہے۔ وہ اپنا شامی پاسپورٹ دکھاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایک مہینے پہلے تک وہ شامی فوج میں لیفٹیننٹ تھا۔ پھر وہ شامی فوج کو چھوڑ کر سرحد پار پہنچ گیا۔ بیروت میں حکومت کے مخالف گروپوں نے اس کے بیان کی تصدیق کی۔حسن الحساد نے کہا کہ شام کی سیکورٹی فورسز کے کئی ہزار سپاہی منحرف ہو گئے ہیں۔ ترکی میں ایک باغی جنرل کی قیادت میں، وہ ایک نئی فوج کو منظم کر رہے ہیں۔انشااللہ ، ہم سب متحد ہو کر اس ظالم، صدر بشار الاسد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اور پر امن طریقے سے شام کے بے آسرا لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔جیسے جیسے تحریک زور پکڑ رہی ہے اور ظلم و زیادتی میں اضافہ ہو رہا ہے، شام کے لوگ پابندیوں اور سفارتی دباو کی شکل میں زیادہ بین الاقوامی مدد کی درخواست کر رہے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ بیرونی فوجی مداخلت نہیں چاہتے کیوں کہ ان کا انقلاب عدم تشدد پر مبنی ہے ۔