انساانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ شام میں سکیورٹی فورسز نے جمعہ کو حکومت مخالف مظاہرے پر فائرنگ کرکے 13 افراد کو ہلاک کردیا۔کارکنوں کے مطابق یہ واقعات دارالحکومت دمشق کے علاوہ اس کے گردو نواح اور مرکزی صوبے حمص میں پیش آئے۔مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے جس پر ذلت سے بہتر موت جیسے نعرے لکھے تھے اور وہ ایک بار پھر صدر بشارالاسد سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے تھے۔ ایک ریلی صوبہ حما کے اٹارنی جنرل عدنان باکواور کے گھر کے باہر بھی منعقد کی۔گزشتہ بدھ کو جاری ہونے والی ایک وڈیو میں باکواور کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کی ہلاکت خیز کارروائیوں کے خلاف احتجاجا مستعفی ہوگئے ہیں۔ شام کی حکومت کا کہنا تھا کہ باکواور کو اغوا کرکے زبردستی یہ پیغام ریکارڈ کیا گیا۔دریں اثنا یورپی یونین نے شام سے تیل کی برآمد پر پابندی عائد کردی ہے۔ یونین کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ صدر بشار الاسد پر اپنے مخالفین کے خلاف کارروائیوں کی پاداش میں دبا بڑھانے کا ایک حربہ ہے۔اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق مارچ سے شروع ہونے والی کارروائیوں میں اب تک 2200 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ تاہم حکومت کا نے ان پرتشدد واقعات کا الزام مسلح گروپوں اور دہشت گردوںپر عائد کرتی ہے۔