امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ شام کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال امریکہ کے لیے ’ریڈ لائن‘ ہو گا جس کے بعد امریکہ کی شام کے بحران میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی تبدیل ہو جائے گی۔
President Obama
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے شام پر فوجی مداخلت کا حکم نہیں دیا تاہم شامی حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے برے نتائج برآمد ہوں گے۔
پیر کو وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیب یا ان کا استعمال خطے میں جاری بحران کو مذید وسیع کر دے گا۔
براک اوباما نے کہا کہ کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے سے صرف شام ہی متاثر نہیں ہو گا بلکہ اس سے خطے میں موجود اسرائیل سمیت ہمارے اتحادی بھی متاثر ہوں گے جس پر انہیں تشویش ہے۔
انہوں نے شام کے صدر بشار الاسد کو متنبہ کیا کہ وہ کیمیائی ہتھیار استعمال نہ کریں۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی نقل و حرکت دیکھی تو یہ ہمارے لیے ’ریڈ لائن‘ ہو گی۔
واضح رہے کہ شام دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے جس کے پاس کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے۔
گزشتہ ماہ شام کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ شام میں کبھی بھی کیمیائی ہتھیار تنصیب نہیں کیے جائیں گے۔
واشنگٹن میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ امریکی غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق شامی حکام کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کی نقل و حرکت کر رہے ہیں۔
اس سے پہلے پیر کو شام کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے نئے مشترکہ ایلچی لخدار براہیمی نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ شام کے صدر بشار الاسد کی جانب سے اقتدار چھوڑنے کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔
الجیریا کے سابق وزیر خارجہ لخدار براہیمی نے گزشتہ ہفتے شام کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے سابق ایلچی کوفی عنان کی جگہ لی تھی۔
لخدار براہیمی نے پیر کو بی بی سی کو بتایا کہ وہ ابھی یہ بات کہنے کے لیے تیار نہیں کہ شامی صدر بشارالاسد کو اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا ’میں ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہوں کیونکہ شام کے سفیر کے طور پر میری تعیناتی کچھ دن قبل ہوئی ہے۔ میں اس حیثیت میں پہلی بار نیو یارک جا رہا ہوں جہاں میں ان افراد سے ملوں گا جس کے ساتھ مجھے کام کرنا ہے اور اس کے بعد میں قاہرہ میں عرب لیگ کے رہنماؤں سے ملاقات کروں گا۔‘
دوسری جانب خبر رساں ایجنسی اے پی نے ایک کارکن محمد سعید کے حوالے سے بتایا کہ شام میں تشدد کا سلسلہ جاری ہے اور پیر کو شام کے شمالی شہر حلب میں حکومتی فوج نے ٹینکوں اور جہازوں کی مدد سے بمباری کی جس کے نتیجے میں کم سے کم چودہ افراد ہلاک ہو گئے اور مکانات کو نقصان پہنچا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعرات کو شام میں اپنے مبصرین پر مشتمل امن مشن کی مدت پوری ہونے سے پہلے اس کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے مطابق شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف جاری مظاہروں میں اب تک اٹھارہ ہزار افراد ہلاک جبکہ ایک لاکھ ستر ہزار بے گھر ہو چکے ہیں۔