شام: باغیوں کا سمندری حملہ، ہلاکتوں کی اطلاع

Syria Sea Tiger attack

Syria Sea Tiger attack

شام : (جیو ڈیسک) شام کے سرکاری ٹی وی کے مطابق مسلح باغیوں کے سمندر کی جانب سے ملٹری یونٹ پر حملے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی اطلاع ہے۔ باغیوں کے اس حملے کو سمندر کی جانب سے پہلا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب لبنان کا کہنا ہے کہ اس کی نیوی نے ہتھیاروں سے لیس ایک کشتی کو پکڑا ہے جو مبینہ طور پر شام کے باغیوں کے لیے ہتھیار لے کر جا رہی تھی۔

شام کی سکیورٹی افواج اور باغیوں کے درمیان دمشق کے نزدیک ہونے والی لڑائی کے دوران بھاری نقصان کی اطلاعات ہیں۔ اس سے پہلے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے شامی حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے امن منصوبے پر عمل نہیں کر رہی۔ شام میں ہفتے کو تشدد اس وقت شروع ہوا جب لبنان کی نیوی نے بتایا کہ اس نے ایک کشتی کو پکڑا ہے جس کے تین کنٹینرز میں مبینہ طور پر باغیوں کے لیے اسلحہ لے جایا جا رہا تھا۔ اطلاعات کے مطابق لتفلاح نامی کشتی نے لیبیا سے اپنا سفر شروع کیا اور وہ کچھ وقت کے لیے مصر میں رکی جس کے بعد اس کی اگلی منزل شمالی لبنان تھی جب اسے لبنان کی نیوی نے روکا۔

بیروت میں نامہ نگار کا کہنا ہے کہ کشتی شام کے باغیوں کے لیے ہتھیار لے کر جا رہی تھی۔ نامہ نگار کے مطابق لیبیا کی نئی حکومت کو شام کے باغیوں کے ساتھ ہمدری ہے اور دمشق کے حکام نے متعدد بار شکایت کی ہے کہ لیبیا سے شام میں ہتھیار سمگل کیے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب شام کی سرکاری نیوز ایجنسی صنعا کے مطابق ایک ملڑی یونٹ نے دہشت گردوں کے کشتی کے ذریعے ممکنہ حملے کو ناکام بنا دیا۔ایجنسی کے مطابق ایک سرکاری اہلکار نے صنعا نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ملڑی یونٹ کے ارکان نے کشتیوں پر سوار دہشت گردوں کو تصادم کے بعد بھاگنے پر مجبور کر دیا۔

ایجنسی کے مطابق اس تصادم کے نتیجے میں ملڑی یونٹ کے متعدد ارکان ہلاک اور زخمی ہوئے تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ اس میں کتنے باغی ہلاک ہوئے۔ شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق دمشق میں ہونے والے ایک بم دھماکہ میں گیارہ افراد ہلاک اور بیس زخمی ہو گئے۔اس سے پہلے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے دمشق سے مطالبہ کیا کہ کوفی عنان کے امن منصوبے پر فوری طور پر عمل کرے۔

اقوام متحدہ نے شام میں امن منصوبے کی نگرانی کے لیے مبصرین کی محدود ٹیم بھیج رکھی ہے اور گزشتہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام میں مزید تین سو مبصرین کی تعیناتی کی اجازت دی تھی۔ دوسری جانب شام میں شام کے لیے اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی ایلچی کوفی عنان کے شام کے شہروں سے فوجی اور بھاری ہتھیاروں کے انخلا کے مطالبے کے باوجود تشدد کے واقعات جاری ہیں۔