سپریم کورٹ میں شاہ زہب قتل کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ سزائے موت سے بچانے کے لئے ملزمان کو نا بالغ قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، پولیس تعلیمی دستاویزات کا جائزہ لیئے بغیر ڈاکٹر کے پاس پہنچ گئی، جو طریقہ کار کی خلاف ورزی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق شاہ رخ نے کسی اور کے بورڈنگ کارڈ پر سفر کیا ، ایف آئی اے کا کام ہے کہ وہ پتہ لگائے کے شاہ رخ جتوئی کیسے باہر گیا ، پولیس کو چاہئے تھا کہ شاہ رخ کو فرار ہونے والوں کو بھی گرفتار کرتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ اس طرح قتل ہونگے تو حکومتی رٹ کیسے قائم ہو گی، مقدمہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور پولیس کیلئے بھی ٹیسٹ کیس ہے۔ اس موقع پر ڈی آئی جی شاہد حیات نے کہا کہ شاہ رخ جتوئی کو شناختی کارڈ نمبر ایشو کیا گیا ہے، اگر وہ اٹھارہ سال کا نہیں ہوا تو اسے شناختی کارڈ نمبر کیسے ایشو کیا گیا۔
شاہ زیب قتل کیس کی تفتیشی افسر انسپکٹر مبین نے کہا کہ ایئر پورٹ کے ایسے بہت سے گیٹ ہیں جہاں سے لوگوں کو غیر قانونی طور پر نکال دیا جاتا ہے اٹھارہ سال کے بچے کا یہ کام ہر گز نہیں کہ وہ اس طرح نکل جائے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات پر لوگ باتیں کرتے ہیں تو ہم مضطرب ہوتے ہیں اسی وجہ سے کیس میں مداخلت کی، سپریم کورٹ نے شاہ رخ جتوئی کی سفری دستاویزات طلب کرتے ہوئے سماعت چار فروری تک ملتوی کر دی۔