اسلام آباد (جیوڈیسک) ارسلان افتخار کیس کی سماعت کرنے والے شعیب سڈل کمیشن نے تحقیقات مکمل کر کے عبوری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی، رپورٹ میں ملک ریاض اور ارسلا ن افتخار کو ٹیکس چوری کے ملزم قرار دے کر کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی شعیب سڈل کمیشن کی رپورٹ میں ملک ریاض پر 120 ارب روپے ٹیکس بچانے جبکہ ارسلان افتخار پر 5 کروڑ 13 لاکھ روپے انکم ٹیکس چوری کا الزام لگایا گیا ہے۔ دونوں کے خلاف ٹیکس چوری میں ملوث ہونے پر کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ارسلان نے ٹیلی کام سیکٹر سے 90 کروڑ روپے کے کنٹریکٹ حاصل کئے۔
بعض کنٹریکٹس مکمل ہو گئے جبکہ باقی پر کام جاری ہے۔ کنٹریکٹس پر منافع کا تعین ابھی باقی ہے۔ ارسلان کی کمپنی “ایف اے ای” نے نے دو ہزار دس اور گیارہ کے آڈٹ اکاونٹس پیش نہیں کئے۔ دوسری کمپنی “ایف اینڈ اے” کے ٹیکس ریٹرن بھی ایف بی آر کے پاس موجود نہیں ہیں۔ ارسلان پانچ سال کے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کراتے تو ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہے۔ ارسلان کو جرمانے اور ٹیکس چوری سمیت پانچ کروڑ تیرہ لاکھ روپے دینے ہوں گے۔ اس ضمن میں جب ارسلان افتخار سے موبائل فون پر رابطہ کیا گیا تو انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔ شعیب سڈل کمیشن کی رپورٹ میں ملک ریاض پر 53 کروڑ روپے کی ٹیکس چوری کا الزام لگایا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک ریاض نے انیس سو ستانویسے دو ہزار گیارہ تک 7 کروڑ روپے کا نقصان ظاہر کیا۔ ملک ریاض نے سڈل کمیشن کی رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ سڈل کمیشن نے ثابت کر دیا کہ یہ ارسلان کمیشن ہے۔
ملک ریاض نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ بتایا جائے کہ ارسلان افتخار کو 90 کروڑ کے ٹیلی کام کے ٹھیکے کس مہارت کی بنیاد پر دیئے گئے۔ سڈل کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے وزیر داخلہ رحمن ملک کمیشن کی کارروائی میں حائل ہوئے، ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ رحمن ملک نے کمیشن کی کارروائی میں مداخلت کی اور تعاون کے بجائے رکاوٹیں ڈالیں۔ وزرات داخلہ نے ایف آئی اے کے دو افسران کی خدمات بھی پیش نہیں کیں۔ وزرات داخلہ کی جانب سے احکامات کی خلاف ورزی کے ذمہ دار رحمن ملک کو قرار دیا گیا ہے۔