انتخابی اصلاحات کے نام پر شیخ الاسلام طاہر القادری کی جانب سے لانگ مارچ کے اعلان نے پاکستا ن کی سیاسی فضا میں وہ ہلچل مچادی ہے کہ میڈیا کا کاروبار چمک اٹھا ہے اور عوام کی توجہ اپنے بنیادی مسائل سے ہی نہیں ہٹ گئی ہے بلکہ قومی مسائل بھی پس پشت چلے گئے ہیں اور حکومت ہو یا اپوزیشن ، میڈیا ہو یا تجزیہ نگار ، سیاستدان ہوں یا کاروباری ، تجارتی ، صنعتی اور سماجی حلقے ، عام عوام ہوں یا اشرافیہ ہر ایک جگہ پر شیخ الاسلام کا لانگ مارچ موضوع بحث بنا ہو اہے۔
ایک جانب لانگ مارچ کیلئے جاری میڈیا کمپین کے اشتہارات سے میڈیا کی چاندی ہورہی ہے تو دوسری جانب ٹی وی چینلز سے وابستہ اینکر پرسن ، تجزیہ و تبصرہ نگار اپنے اسپانسرڈ شوز کے ذریعے کروڑو ں اربوں روپے ہی نہیں کما رہے بلکہ طاہر القادری کا لانگ مارچ ان کے صحافتی قد کو بھی بڑھا رہا ہے اور ان کی ویورز شپ میںبھی اضافے کا سبب بنا ہوا ہے کیونکہ شیخ الاسلام کے لانگ مارچ کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان کے سیاستدان ‘ تجزیہ وتبصرہ نگار اور میڈیا پرسن سب ہی ایک ہی ٹون میں ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں اور پوری قوم اس راگ کی لہروں کی وجہ سے مخمصے اور مستقبل کے خوف کا شکار ہوچکی ہے، نہ صرف اسٹاک مارکیٹ بیٹھ رہی ہے بلکہ پہلے ہی سے مفقود صنعتی ‘ تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بھی بری طرح سبوتاژ ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے عوام الناس کے پاس ٹی وی دیکھنے اور دانشوروں کی باتوں سے آنے والے کل کے خوف سے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق آنے والے کل کیلئے اشیائے ضروریہ گھر میں جمع کرنے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔
شیخ الاسلام طاہر القادری کے لانگ مارچ کا جثہ و پیمانہ کیا ہو گا ، شیخ الاسلام کی توقعات کے مطابق عوام ان کا بھرپور ساتھ دیں گے یا سیاستدانوں اور دانشوروں کی پیشنگوئیوں کے مطابق قادری صاحب کا شو فلاپ ہوجائے گا ؟ کیا اسلام آباد میں لگائے گئے کنٹینرز اور حکومتی حکمت عملی لانگ مارچ کو اس کے فطری انجام تک پہنچنے سے قبل پسپا کرنے میں کامیاب ہوجائے گی ؟ کیا شیخ الاسلام حقیقی معنوں میں عوام کی عدالت لگاکر سیاستدانوں اور حکمرانوں کا احتساب کرنے میں کامیاب رہیں گے یا لانگ مارچ ، پیش کردہ خدشات کے مطابق جمہوری نظام کو ڈی ریل کرنے کا سبب بن جائے گا ؟ کیا عوام اس لانگ مارچ کے ثمرات سے فیضیاب ہوسکیں گے یا اس کے مضمرات قوم کی تقدیر پرمزید کالک پوتنے کاباعث بنیں گے۔
Tahir Ul Qadri
لانگ مارچ انتخابی نظام میں نئی اصلاحات اور احتساب کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوسکے گا یا ہر سیاسی تحریک اور مارچ و لانگ مارچ کی طرح اس کا فائدہ بھی روایتی انداز سے اشرافیہ ‘ بیورو کریسی اور سیاستدانوں کو ہی پہنچے گا ، اور سب سے بڑھ کر لانگ مارچ شیخ الاسلام کے اعلان کے مطابق اتنا ہی پر امن ہوگا کہ ایک گملا تک نہ ٹوٹے یا پھر قوم کو مزید کوئی نیا ستم اور سانحہ سہنا پڑے گا۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب آج شام تک منظر پر آجائے گا اور یہ بھی پتا چل جائے گا کہ مذہبی وروحانی حوالے سے دنیا بھر میں مقبول شیخ الاسلام سیاسی و عوامی محاذ پر کتنے معروف منظور اور معتبر ہیں، لیکن قطع نظر لانگ مارچ کے انجام اور اس کے نتائج کے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک چیز تو لانگ مارچ کے اعلان کے ساتھ ہی واضح ہو چکی ہے کہ آئین کے تحفظ اور پاسداری کے نام پر عوامی مفادات کا نہیں بلکہ اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی قادری صاحب کے لانگ مارچ کو خلاف آئین قرار دے کر وطن عزیز کے اختیار واقتدار پر قابض ٹولے اور عوام کی ہمدردی کا دَم بھرنے والی جماعتیں اور قیادتیں ہی نہیں بلکہ تیز رفتاری سے دولت اور شہرت حاصل کرنے والے ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہ خدشہ و خطرہ لاحق ہے کہ کہیں ناانصافی اور کرپشن کا خاتمہ ہو گیا اور ملک میں حقیقی معنوں میں اصلاحات آگئیں تو ان کا کیا ہو گا یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ سے میڈیا تک اور قانون سے کاروبار تک ہر ایک شیخ الاسلام سے خائف اور ایک دوسر ے کو شیخ الاسلام کے خلاف سپورٹ کرتا دکھائی دیتا ہے۔
اس صورتحال میں اگر یہ کہا جائے کہ شیخ الاسلام کا لانگ مارچ اصلاحات کے حوالے سے انعقاد سے قبل ہی کم ازکم اتنی کامیابی حاصل کرنے میں تو ضرور کامیاب ہو چکا ہے کہ اس نے قوم کو منتشر کرنے والوں کو متحد ضرور کردیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ لانگ مارچ عوام اور جمہوریت کیلئے اصلاحات اور استحکام کا ضامن ثابت ہوگا یا اس کی کوکھ سے آمریت کا جن ایک بار پھر نکل کر ملک و قوم پر سایہ فگن ہوجائے گا اس کا ثبوت و نتائج آنے میں یقینا کچھ وقت لگے گا لیکن دوسری جانب لانگ مارچ کی افادیت اور مضمرات سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب دہشت گردی کا عفریت پوری طرح اپنی جوانی و قوت کے اظہار کے ذیعے ہرروز پاکستان کے کسی نہ کسی علاقے میں معصوم عوام کا شکار کر رہا ہے اور ہر روز کا طلوع ہونے والا سورج آہوں اور سسکیوں کے پہلو میں غروب ہو رہا ہے یہ خدشات بہرطور موجود ہیں کہ لانگ مارچ بھی کسی تخریب کاری یا دہشت گردی کی نذر نہ ہوجائے اور عوام کیلئے اصلاحات ، مستحکم جمہوریت ، خوشی و خوشحالی کی بجائے زخموں ، آہوں ، سسکیوں ، کرب اور سانحہ کا پیام نہ لے آئے۔
اسلئے آج پوری قوم کو ربِّ رحیم و کریم کے حضور سر بسجود ہو کر یہ دُعا کرنی چاہئے کہ اللہ وطن عزیز کے تمام عوام کو ہر خطے کو ‘ ہر فرد کو اور شیخ الاسلام سمیت تما م قائدین کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور لانگ مارچ اس انجام پر منتج ہو جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو۔
حکمرانوں کو بھی نزاکت وقت کا احساس کرتے ہوئے شیخ الاسلام کے لانگ مارچ میں خلل ڈالنے کی بجائے سیکورٹی کو فول پروف بنانے اور تخریب کاروں کے ارادوں کو ناکام بناکر لانگ مارچ اور اس میں شریک ہر پاکستانی کی حفاظت کو اپنی اولین ترجیح بنانا چاہئے کیونکہ لانگ مارچ کے مقاصد خواہ وہ ہوں جو شیخ الاسلام فرما رہے ہیں یا وہ جس کا اظہار دانشور اور سیاسی حلقے کر رہے ہیں لیکن کسی بڑی تخریب کاری کی شکل میں نتیجہ آہوں ‘ سسکیوں اور اندھیرے مستقبل کی شکل میں ہی نکلے گا۔اسلئے حکومت و اپوزیشن سمیت عوام کی ترجمان کہلانے والی تمام سیاسی جماعتوںاور قیادتوںکا فریضہ ہے کہ وہ جس طرح شیخ الاسلام کے خلاف متحدو یکجا ہوئی ہیں اسی طرح دہشت گردی اور تخریب کاری کے خلاف بھی متحدو یکجا ہوکر لانگ مارچ کو قومی سانحہ بننے سے بچانے میں اپنا اپنا مثبت کردار ادا کریں۔