وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے جرمنی :پاکستان عوامی تحریک کے چیرمین اور تحریک منہاج القرآن کے بانی و سر پرست اعلیٰ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنی سیاسی جماعت ،پاکستان عوامی تحریک کی سیاسی سرگرمیوں کو ایک طویل عرصے تک معطل رکھنے کے بعد لاہور میں23 دسمبر کو مینار پاکستان کے سائے تلے پاکستان کی حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا،منظم، پر امن اورکامیاب جلسہ کیا کیا کہ ملک کے طول وعرض میں بھونچال آگیا۔سیاسی اقتدار کے ایوانوں پر لرزہ طاری ہو گیا۔اقتدار پر قابض دو بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندے اور رہنما خم ٹھونک کر میدان میں آگئے۔
میڈیا کے چند اینکروں،کالم نگاروں، صحافیوں،تجزیہ نگاروں اور دانشوروں نے،جنکے مفادات اقتدار میں شامل جماعتوں ،چندمخصوص سیاسی و مذہبی رہنمائوں یا سرمایہ داروں کے ساتھ وابستہ ہیں یا وہ ہر بات کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں،اپنی تجزیہ نگاری اور دانشوری کے شوق میں وہ وہ باتیں شیخ الاسلام سے منسوب کیں،وہ وہ الزامات لگائے،وہ وہ تاویلیں پیش کیں،وہ وہ نکتے نکالے،جن کانہ ڈاکٹر صاحب کی تقریر میں ذکر تھا، نہ کسی انٹر ویو میں انہوں نے یہ باتیں کی تھیں اورنہ ہی انہوں نے اس کا مطالبہ کیا تھا۔ شکر ہے کہ میڈیا میں کچھ لوگ اب بھی بے لاگ،غیرجانبدارانہ،دیانت اور انصاف پر مبنی سنجیدہ اور حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں،ورنہ حقیقت سامنے نہ آتی۔
ڈاکٹرطاہرالقادری نے اپنے استقبالیہ جلسے،منعقدہ مینار پاکستان،لاہور میں عوام کے جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے انتخابات کی شفافیت کے لئے آئین پاکستان کی رو سے جن شقوں کی پابندی کا مطالبہ کیا تھا ،وہ مندرجہ ذیل ہیں:شق نمبر ٣ جو کہتی ہے کہ” ریاست ناجائز فائدے Exploitation کے خاتمہ کی ضمانت دیتی ہے۔ ”؛شق نمبر ٩ جو کہتی ہے کہ ”ریاستی قانون ہر شخص کی آزادی اور زندگی کا ضامن ہے۔
شق نمبر 38 جس کے مطابق ” دولت کے چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے کی مخالفت کی گئی ہے۔آجر اور مزدور،زمیندار اور کسان، سب کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ہر شخص کو اپنی قابلیت اور کام کے لحاظ سے اپنے معیار زندگی کو بہتر کرنے اور آرام دہ زندگی گزارنے کا حق ہے۔ہر شخص کو روزگار فراہم کرنا اور ہر شخص کے لازمی بے روزگاری بیمہ سسٹم کی مدد سے اس شخص کی بیروزگاری کی صورت میںاسے سوشل سیکورٹی فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ہر اس شہری کو،جو عارضی یا مستقل طور پربیماری، معذوری یا بیروزگاری کی وجہ سے کوئی آمدنی نہ رکھتا ہو۔
Elections Pakistan
زندگی کی بنیادی ضروریات، روٹی کپڑا، مکان، تعلیم، علاج کی سہولتیں فراہم کرنے کی ذمہ دارریاست ہے۔ ملازمین سرکار کی انفرادی آمدنیوں کے باہمی فرق کو کم کرنے کی کوشش کی جائے۔سود(ربائ) کا جلد از جلد خاتمہ کیا جائے۔وفاقی ملازمتوں میں ہرصوبہ کا حصہ یقینی بنایا جائے گا۔ ”شق نمبر218 کے جز 3 کی رو سے” الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ وہ انتخابات کے لئے ایسے انتظامات کو یقینی بنائے،جن میں انتخابات ایماندارانہ،منصفانہ،غیرجانبدارانہ اور قانون کے مطابق ہوں اور ناجائز طریقہء کار سے بچنے کی ضمانت موجود ہو۔” 3) It shall be the duty of the Election Commission constituted in relation to an election to organize and conduct the election and to make such arrangements as are necessary to ensure that the election is conducted honestly, justly, fairly and in accordance with law, and that corrupt practices are guarded against. انہوں نے کہا کہ” آئین کی رو سے عبوری حکومت انتخابات کرانے کے لئے٩٠ دن سے زیادہ وقت لے سکتی ہے۔آئین مانع نہیں ہے۔
اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ میڈیا کے مشہور اینکر،نامور سیاسی رہنما،جغادری تجزیہ نگار،ممتاز صحافی اور اقتدار کے حامل افرادان باتوں سے وہ مطلب اخذ کیوں کر رہے ہیں،جو قادری صاحب کا نہیںہے؟وہ باتیں کیوں انکے مونہہ میں ڈال رہے ہیں،جو انہوں نے نہیں کہی ہیں؟کیا یہ اس نظام کے مطابق مخالفین کے لئے مکر فریب، کذب و افترا،دروغ گوئی اور جھوٹے پروپیگنڈے پر مبنی قابل مذمت اور انتہائی مکروہ مہم نہیں ہے؟ کیا یہ اقتدار سے چمٹے ہوئے لوگوں، انکے حواریوں اور کاسہ لیسوںکی ہاری ہوئی جنگ نہیں، جو نظام کی بہتری کے مطالبے کو تسلیم کئے بغیر، مندرجہ بالا شقوں کی پابندی کئے بغیر،اپنے طے شدہ منصوبوں کے تحت اپنی اپنی باریوں اوراپنے اپنے لفافوں کے منتظر ہیں؟ کیونکہ اسی میں ان لوگوں اور گروہوں کی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔آئین کی پابندی کرنے والا سیاسی نظام تو ان کی سیاسی موت کا پروانہ ہے۔ صحافتی اقدار کی پابندی انکی بالائی آمدنی میں رکاوٹ ہے۔ کیا یہ سب ایک ہی حمام کے ساتھی ہیں؟پھردہری شہریت کے حامل،محب وطن پاکستانیوں کی ارسال کردہ رقوم پر زندگی کی سانس لینے والے یہ نام نہاد محب وطن، جن کی صفوں میں ایک سے ایک بڑا غدار وطن موجود ہے، قادری صاحب کی پاکستانیت پر شک کیوں کر رہے ہیں؟کیونکہ ان بے چاروں کے پاس عوام کو قائل کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے؟یہ ہٹلر کی طرح پروپیگنڈے کے زور پر جھوٹ کو سچ اورسچ کو جھوٹ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ چاہے ناکامی ہی ان کا مقدر کیوں نہ ہو۔
اگر ہم بلا تعصب ڈاکٹرطاہر القادری کے خطاب،مطالبات اورعوامی مارچ کے اعلان کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو سکتی ہے کہ یہ تمام مرحلے ایک دو ماہ میں طے کئے جا سکتے ہیں۔شرط یہ ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمران ہوش کے ناخن لیں،معاملے کی سنجیدگی پر غور کریں، اصلاح احوال کے لئے اپنی نیتیں درست کریں،نوشتہ دیوار کو پڑھ لیں،جان بوجھ کرانجان نہ بنیں،ریت کی دیواریں نہ بنائیں، خود کو اور عوام کو فریب نہ دیں، سنجیدگی، بردباری اورمعاملہ فہمی کو بروئے کار لاتے ہوئے، آئین پاکستان کی پاسداری کرتے ہوئے، روایتی سیاسی نظام کی خرابیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے اس میں ایسی اصلاحات کریں کہ طریقہء انتخاب آئینء پاکستان کی مطلوبہ شقوں کے مطابق ہو سکے۔
حکومت ،الیکشن کمیشن،مقتدرہ قوتیں اورعدالت عظمےٰ اپنے اپنے اختیارات کے تحت آئین پاکستان میں امیدواروں کی اہلیت کے بارے میں واضح شقوں کی پابندی کو یقینی بناتے ہوئے مقررہ وقت میںانتخابات کروائیں۔ یہی ملک و قوم کے لئے بچت اور نجات کا صحیح راستہ ہے۔قادری صاحب قتل جمہوریت نہیں،اصلاح جمہوریت کے قائل ہیں۔وہ ”انتخابات ملتوی کرانے نہیں،انہیں درست کرنے آئے ہیں۔”انہوں نے ساری دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کے متعصب،جاہلانہ،جارہانہ اور باطل پروپیگنڈے کے خلاف تن تنہاجنگ لڑی ہے۔وہ پاکستان کے واحد عالم دین ہیں،جنہوں نے دہشت گردی کوکفر قرار دیتے ہوئے تمام دہشت گردوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا اور اس بارے میںقرآن و حدیث کے حوالوں سے مزین چھ سو صفحات پر مشتمل فتویٰ جاری کیا۔انکی بین المذاہب رواداری، عالمی امن کی کوششوں، تعلیمی و رفاہی سرگرمیوں اور اعتدال پسندانہ اسلامی سوچ کی وجہ سے منہاج القرآن کو اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارہ میں مبصراور مشیر کا درجہ دیا گیا۔اب یہ اور بات ہے کہ ہمارے اکثر دانشور، صحافی،اینکر اور سیاسی کارکن یا تو واقعی لاعلم ہیں یا جان بوجھ کران کے ایجنڈے کو کبھی فوج کا ایجنڈا، کبھی جمہورت دشمن طاقتوں کا ایجنڈا اورکبھی دہشت گردوں کا ایجنڈا قرار دینے پرتلے ہوئے ہیں۔
مجھے شک ہے کہ ان میں سے بیشتر نے قادری صاحب کی پہلی تقریر سنی ہی نہیں۔ٹی وی شوز میں ان عقل کل قسم کے لوگوں کی باتوں سے،جو ایک دوسرے کی جھوٹی خوشامد،تعریف او رطے شدہمصنوعی لڑائیوںمیں مصروف رہتے ہیں، کی لاعلمی،کج فہمی اور ہٹ دھرمی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہٹلر کے پروپیگنڈہ وزیر گوئبلز کے جانشینوںکی یہ داستان خود فریبی پاکستان کی تاریخ کا حصہ بن رہی ہے اور یہ سیاسی بازیگر، سرکس کے جوکروں اوربرات کے مراثیوں کی طرح پھکڑ پن کرنے،تہذیب سے گرے جملے کسنے اور بھونڈی جگت بازی میں مصروف ہیں ۔ہاں مجھے انکی ایک بات سے اتفاق ہے کہ” قوم بے وقوف نہیں ہے۔وہ ساری ڈرامہ بازی سمجھ رہی ہے۔