کوئی بھی ٹی وی چینل دیکھ لیں،کسی بھی اخبار کی ہیڈلا ئن پڑھ لیں یا پھر کسی بھی رائیٹر کے کالم کا مطالعہ کریں آج کل آپ کو ملک ریاض ،چیف جسٹس آف پاکستان چوہدری افتخار ،چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار اور پاکستان ٹی وی کے نامور اینکرز کے نام پڑھنے ، دیکھنے اور سننے کو ملیں گے ملک ریاض کا مختصرتعارف یہ ہے کہ وہ پاکستان بحریہ ٹاون کا مالک اور بہت بڑا بزنس مین ہے اس وقت پاکستان کی موجودوہ سنگین صورتحال کے پیچھے بھی ملک صاحب ہی کا ہاتھ ہے۔
ملک ریاض نے چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار پر یہ الزام لگایا ہے کہ اس نے چیف جسٹس آف پاکستان چوہدری افتخار سے عدالتی فیصلے اپنے حق میں کروانے کے لیے چیف جسٹس صاحب کے بیٹے ارسلان افتخار کو 34کروڑ روپے بطور رشوت دئیے تھے ملک ریاض نے اپنی دولت کے بل بوتے پر پاکستان کی آزاد عدلیہ اور ہر دل عزیز شخصیت چیف جسٹس آف پاکستان چوہدری افتخار کو بدنام کر نے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کئی نامور سیاستدانوں ، جنرل ،کرنل اور میڈیا کے لوگوں کو بھی بھاری رقوم تقسیم کرنے کا الزام لگایا ہے ۔ ملک ریاض کی طرف سے جاری کردہ بحریہ ٹائون کے ایک لیٹر ہیڈ پر لکھے ہوئے ان صحافیوں کے نام اور ان کو دی گئیں مراعات کی تفصیل کچھ اسطرح سے ہے۔
مبشرلقمان(2کروڑ 85لاکھ اور ایک بنگلہ)نجم سیٹھی (ایک کروڑ 94لاکھ ۔ایک کنال کا پلاٹ اور امریکہ کے چاردوروں کا کا خرچ)ڈاکٹر شاہد مسعود (ایک کروڑ سات لاکھ) کامران خان(62لاکھ اور یو۔اے ۔ای میںایک فلیٹ) حامد میر(2کروڑ 50لاکھ اور ایک کنال کا پلاٹ ) حسن نثار (ایک کروڑ دس لاکھ اور بحریہ ٹائون میں دس مرلے کا ایک پلاٹ) منیب فاروق(25لاکھ روپے)مظہر عباس( 90لاکھ روپے اور دس مرلے کا پلاٹ) مہر بخاری اور کاشف عباسی(50لاکھ روپے اور ایک کنال کا پلاٹ ) خوشنود علی خان( 2کروڑ روپے اور تین اخبارات کی مفت اشاعت ) جاوید چوہدری ( 1کرورڑ روپے اور ملک ریاض کے لیے فی کالم لکھنے کے لیے 3لاکھ روپے) عاصمہ شیرازی( 45لاکھ روپے) سہیل وڑائچ( 15لاکھ روپے) مشتاق منہاس( 55لاکھ روپے) نصرت جاوید (78لاکھ روپے) اور آفتاب اقبال 45لاکھ روپے جیسے ہی بحریہ ٹاؤن کے لیٹر ہیڈ پر لکھی ہوئی یہ تحریر فیس بک اور یوٹیوب کے زریعے منظر عام پر آئی تو پورے پاکستان میں ہنگامہ برپا ہو گیا اور تقریباً سبھی ٹی وی چینلز کے تمام اینکرز نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے اپنے اپنے پروگراموں کے زریعے اپنی بے گناہی کی دلیلیں پیش کرتے ہوئے نظر آئے یہاں تک کہ پاکستان کے عوام نے بھی میڈیا پر لگائے گئے الزامات کی مذمت کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ پاکستانی میڈیا پاکستان کے عوام کے لیے کسی مسیحا سے کم نہیں ہے اور عوام میڈیا پر اندھا اعتماد کرتے ہیں لیکن پاکستان کے عوام کا یہ اندھا اعتماد اس وقت چکنا چور ہوگیا جب دنیا ٹی وی پر ملک ریاض کے خصوصی انٹرویو کی ایک بریک کے دوران مبشر لقمان اور مہر بخاری کی آف ائیر ریکارڈ کی گئی گفتگو لوگوں کے سامنے آگئی جس میں خود مہر بخاری یہ اعتراف کر تی ہوئی نظر آئی کہ یہ پروگرام پلانٹڈ ہے۔
Arsalan Chaudhry case
ملک ریاض سے کون سے سوال پوچھنے ہیں اور ملک ریا ض نے ان سوالوں کے کیا جواب دینے ہیںیہ سب کچھ پہلے ہی سے طے شدہ تھا اور اس کے علاوہ دوران پروگرام مختلف سیاسی شخصیات کا اینکرز کو فون آنا اور ان کی منشاء کے مطابق سوالات اور جوابات تیار کرنا جس نے سرا سر آزادی صحافت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے آزاداور شفاف صحافت کو جو امیج لوگوں کے ذہنوں میں تھا یقینا اس میں دراڑ پڑ گئی ہو گی۔ مہر بخاری اور مبشر لقمان کی آف ائیر ریکارڈ کی گئی غیر معیاری گفتگو نے پاکستان میں صحافت اورپوری صحافی برادری کے ماتھے پر ایک بد نما داغ لگا دیا ہے۔
پاکستان کے عوام کا حکومت اور کرپٹ سیاستدانوں پر سے تو اعتماد پہلے ہی اٹھ چکا ہے اور اب میڈیا کے نامور لوگوں پر لگنے والے کرپشن کے الزامات کی وجہ سے عوام کا میڈیا پر سے بھی اعتما د ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے ا گر میڈیا نے اپنے اندر چھپی ہوئی کالی بھیڑوں کو باہر نکال کر نہ پھینکاتو پھر وہ دن دور نہیںجب کوئی بھی میڈیا کی سچائی پر یقین نہیںکرے گا اس لیے آزادنہ ،منصفانہ اور ایماندارانہ صحافت کی ساکھ کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا جس طرح کرپٹ سیاستدانوں ،جنرلز،کرنلز اور بیورکریٹس کا احتساب کرتا ہے اب خود بھی اپنا احتساب کرے اور ایسے تما م وہ کرپٹ صحافی جو ملک ریاض کے دسترخوان سے مستفید ہوچکے ہیں جو چند پیسوںکے بدلے صحافت بیچتے ہیں۔
اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیںاور معصوم عوام کو اندھیرے میںرکھتے ہوئے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بتا تے ہیں ایسے تما م صحافیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کو کیف کردار تک پہنچایا جائے اور ان کا بے نقاب چہر ے عوام کے سامنے لائے جائیں تاکہ عوام کو یہ پتہ چل سکے کہ انسانی شکلوں میں چھپے بھیڑ ے کیسے ہوتے ہیں۔
malik riaz
میڈیا پاکستان کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے اور چند نام نہاد بے حس لوگوں کی وجہ سے باقی تین ستونوں کی طرح اب یہ چوتھا ستون بھی ڈگمانے لگا ہے ملک ریاض نے تقریباً تمام نامور صحافیوں اور اینکرز پر کرپشن کا الزام لگایا ہے اور یہ تما م بڑے بڑے صحافی صحافت کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں اگر یہ تما م لوگ سچے اور بے گناہ ہیں تو اپنے آپ کو احتساب کے لیے عوام کی عدالت میں پیش کریں اور اپنی بے گناہی ثابت کرکے ملک ریاض جیسے ہر اس شخص کو منہ توڑ جواب دیں جو ایک صحافی کے قلم کو اپنی دولت کی طاقت سے خریدنا چاہتے ہیں کیونکہ آپ لوگوں کی بے گناہی ،سچائی اورایمانداری ا ہی اب صحافت کے ماتھے پر لگے اس بدنما داغ کو دھو سکتی ہے۔