ماہ رمضان کی بابرکت بہاروں کی رخصتی اور عیدالفطر کی تعطیلات کے بعد آج ایک بار پھر ہم اپنے قارئین سے اپنا رشتہ اِس کالم کے ساتھ جوڑرہے ہیں جو اپنے موضوع کے لحاظ سے کئی اہم خبروں پر مشتمل ہے تو ایسے میں ہم وقت ضائع کئے بغیر سب سے پہلے بات کریں گے کراچی کے حالات کے حوالے سے تو عرض یہ ہے کہ اِس حقیقت سے کوئی بھی محب وطن پاکستانی شاید انکار نہ کرسکے کہ صنعتی اور تجارتی لحاظ سے پاکستان کا مرکزی حیثیت کا حامل شہرکراچی جو ماہ جولائی سے تادم تحریر اپنے یہاں مختلف حیلے بہانوں سے ہونے والی قتل وغارت گری کی وارداتوں کی وجہ سے جس خوف وہراس میں مبتلاہے اِس کی مثال ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی اورحد تو یہ ہے کہ دوکروڑ سے زائد آبادی والے شہرِ کراچی کے محب وطن شہریوں نے ماہِ شعبان ورمضان کی برکتوںاور رحمتوں سے لبریز گھڑیوں اور عیدالفطر کے حسین لمحات کو بھی ڈروخوف میں گزارا۔ جبکہ یہاں افسوس کی بات تو یہ رہی کہ کراچی کے شہریوں کی اِس کیفیت سے نجات دلانے کے لئے نہ تو حکمران وقت نے سنجیدگی سے کوشش کی اور نہ ہی کوئی خداترس آگے بڑھا اُلٹا اِس سارے عرصے کے دوران یہ دیکھنے میں ضرور آیا کہ کچھ لوگوں نے اپنے سیاسی اور ذاتی اور دوسرے طرح طرح کے مقاصد کے حُصول کے لئے کراچی کے حالات پر تیل ڈالنے کی کوشش کی تاکہ آگ اور بھڑک اُٹھے اور اِنہیں اپنے مقاصد حاصل ہوسکیں یہاں ہم یہ ضرور کہیں گے کہ وہ تو اللہ بھلاکرے چند مٹھی بھر ایسے اچھے لوگوں کا جن کی کوششوں سے حالات اَب تک کنڑول میں ہیں ورنہ کچھ لوگوں نے تو چاہاتھاکہ کراچی کے حالات سنگین سے سنگین تر ہوجائیں تو اِن کے دلوں کو سکون نصیب ہو بہرحال ایسے لوگوں کے لئے جنہوں نے دانستہ اور غیر دانستہ طور پر یہ چاہاکہ شہرکراچی کے حالات بگڑ جائیں تو ایسے لوگوں کے لئے یہ شعر عرض ہے کہ ، ہم نے شُعلوں کو شراروں کو بہت دیکھاہے ہم نے تقدیر کے ماروں کو بہت دیکھاہےاَب تمناہے کہ دورِگُلِ خنداں آجائے ہم نے اَفسردہ بہاروں کو بہت دیکھاہے بہرکیف!وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی نے ملتان میں وزیراعظم سرکٹ ہاؤس میں صحافیوںسے گفتگومیں علاقے کے عمائدین اور حلقے کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنے انتہائی نپے تلے الفاظ میں کہاکہ ”ایم کیو ایم حقیقت ہے ” اور کراچی کے حالات جلدٹھیک کرنے کے لئے بھتہ مافیا، دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افرادکے خلاف بلاامتیاز کارروائی کریں گے جبکہ اِس موقع پر اُنہوں نے اپنے اِس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ وہ ذوالفقار مرزاکے حوالے سے پارٹی فیصلے کے پابندہیں اور اِسی طرح اُنہوں نے کراچی کے حالات درست کرنے کے حوالے سے اتناضرور کہاکہ وہ کسی پارٹی کا مسلح ونگ چاہتے ہیں اور نہ ہی برداشت کریں گے یہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کے یہ الفاظ کراچی کے ڈرے سہمے دوکروڑ عوام کے لئے حوصلہ افزاء ہیں جس سے کراچی کے عوام کی ہمت بڑھی ہے اور وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ وزیراعظم بھی یہ چاہتے ہیں کہ کراچی شہر کو ہر قسم کے غیر قانونی اسلحے اورکسی بھی پارٹی کے مسلح ونگ سے پاک کیاجائے تاکہ شہرِ کراچی اپنے ماضی کی طرح ایک بار پھرسے امن و شانتی کا عظیم گہوارہ بن جائے اوریہاں کے لوگوں کو امن و سکون نصیب ہو اور یہاں دائمی دامن وامان کے قیام سے صنعت و تجارت کا پہیہ چلتارہے اور پاکستان اپنی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجائے اور ساتھ ہی وزیراعظم نے اپنے خطاب میں یہ بات بھی کہی کہ ملک میں نئے صوبوں کے قیام سے ملک کمزرو نہیں ہوگا کچھ لوگوں کو سرائیکی لفظ پسندنہیں مگر پھول کو کسی نام سے بھی پکاریں خوشبو دیگا۔ اِس موقع پر ہم اپنے وزیر اعظم سیدیوسف رضاگیلانی سے یہ ضرور کہیں گے کہ اگر بہتر ہوتو کراچی کو بھی ایک صوبے کا درجہ دے دیاجائے تاکہ ہر قسم کی سیاسی محاذ آرائی اور دیگر مسائل سے بھی اِسے جھٹکارہ حاصل ہوسکے۔ بہر حال !یہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وزیراعظم سیدیوسف رضا گیلانی حقیقی معنوں میں شہر کراچی میں امن وامان کے دائمی قیام کے لئے سنجیدہ ہیں تو پھر اِنہیں تُرنت ایک لمحہ بھی ضائع کئے اوراپنے ہر قسم کی سیاسی مصالحت کا شکار ہوئے بغیر شہر کو ہر قسم کے غیرقانونی اسلحے اور کسی بھی پارٹی کے مسلح ونگ سے پاک کرنے کے لئے شہر کراچی کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتو ں کو اعتماد میں لے کر ایسے اقدامات ضرور کرنے چاہیں جن کے فوری طور پر کرنے سے حالات میں بہتری آئے۔ اُدھر 28اگست کی شام سندھ کے سابقہ وزیرڈاکٹرذوالفقار مرزا کی دوگھنٹے سے زائد طویل ترین پریس کانفرنس کے بعد بالخصوص کراچی اور ملک میں پیداہونے والے سیاسی بھونچال پر ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری کے زیر صدرات ہونے والے اپنی نوعیت کے اہم ترین اجلاس سے صدر آصف علی زرداری نے اپنی سیاسی فہم وفراست اور تدبرانہ حکمتِ عملی کا سہارالیتے ہوئے اپنے خطاب میںاپنی پارٹی کے رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ معاملات لڑجھگڑ کر حل نہیں کئے جاسکتے جیساکہ سندھ کے سابق وزیرچاہتے تھے اِس موقع پر صدر نے اپنی بات کو ثابت کرانے کے لئے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کے سامنے تین اِسی مثالیں بھی پیش کیں جو آج حقائق پر مبنی ہیں جنھیں کسی بھی دیدہ ور کو جھٹلانا مشکل ہے وہ یہ ہیں کہ لڑائی جھگڑوں سے مسائل کسی بھی صُورت میں حل نہیں ہوسکتے صدر نے کہاکہ اول وہ اِن تمام سے لڑائی کریں جنھوں نے مجھ پر،بینظیربھٹوپر اور پی پی پی رہنماؤں پر غیرمتوازی سیاسی مقدمات بنوائے صدر نے کہاکہ کوئی بتاسکتاہے کہ تشددمسائل حل کرنے میں مدددیتاہے…؟؟اور کیایہ دانشمندی والاراستہ ہے…؟؟جبکہ صدر نے دوسری مثال یہ پیش کی کہ بلوچستان میں کچھ لوگ مختلف وجوہات پر ناراض ہیں ۔قومی جھنڈاجلارہے ہیںاور سرعام اعلان کرتے پھر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو نہیں مانتے توکیامجھے اُن سے لڑائی کرنی چاہئے نہیں مجھے ہرگزنہیں کرنی چائے اور مزیدبرآں صدر نے تیسری مثال جو اپنے اندر بڑی گہرائی اور سوچ کے لحاظ سے بڑی وسعت رکھتی ہے یہ دی کہ امریکہ جو عسکریت پسندوں سے کئی سالوں سے لڑرہاہے اور اپنے اربوں کھربوں ڈالر اپنی اِس لڑائی میں جھونک چکاہے آخرکاروہ بھی اَب طالبان سے مذاکرات کرنے میں مصروف ہے اِن تمام تینوں مثالوں کو انتہائی صبروتحمل سے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کے سامنے پیش کرنے کے بعد صدر نے اپنے مخصوص انداز اور لب ولہجے کے ساتھ فکر وفراست سے کہاکہ دیکھااِن تمام تین مثالوں میں بات چیت کا آغازکرناپڑااور اِس لئے میں نے بھی ہمیشہ متحدہ قومی موومنٹ سے لڑائی کی مخالفت کی اور اِس کے ساتھاور دوسری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بھی مصالحت پسندی کو ترجیح دی اگرچہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ صدر زرداری کی عادت میں جو مصالحت پسندی کا عنصر غالب ہے وہ اِن کی کامیابی اور کامرانی کا ضامن ہے ورنہ اگر صدر نے بھی اوروں کی طرح کبھی مصالحت پسندی کا دامن اپنے ہاتھ سے چھوڑادیاتو پھر ملک میں وہی کچھ ہوتاہوادِکھائی دے گا جو دوسرے مصالحت پسندی کا دامن چھوڑ کر ملک میں کرناچاہتے ہیں۔ اَب صدر آصف علی زرداری کی مندرجہ بالا دانشمندانہ مثالوں کے بعد بھی کوئی اِن کی مہم وفراست سے لبریز مثالوں سے کوئی مثبت اور تعمیری نتائج اخذانہ کرسکے تو پھر ایسے فرد کے لئے یہ شعر عرض کرکے ہم اجازت چاہیں گے کہشہنشاہوں کے درباروںسے ہے بزمِ گدابہتر غزل کے تاجورسے بُلبلِ شیریں نوابہترنفاق آرائی سے ہے شیوہء صدق وصفا اچھا محاذ آرائی سے ہے جذبہء مہرووفابہتر تحریر: محمداعظم عظیم اعظمazamazimazam@gmail.com