حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے کے مسئلے پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں محاذ آرائی تیز ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔جبکہ متحدہ قومی موومنٹ ،تحریک انصاف اوردوسری جماعتوں نے بھی اس حکومتی روش پر ناپسندیدگی کا اظہار ضروری سمجھا ہے ۔مسلم لیگ (ن) نے وفاقی حکومت کی طرف سے اعلی عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد سے گریز کو خطرے کی گھنٹی قرار دیتے ہوئے راست اقدام کی دھمکی دی ہے۔ وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت عدلیہ کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کرچکی ہے، ہم اس کا پوری قوت سے راستہ روکیں گے اور عدلیہ کا وقار بحال کرنے کے لئے پنجاب حکومت کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما بابر اعوان نے اس کے جواب میں مسلم لیگ (ن) پر عدلیہ کو سیاسی بنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے یہ بات دہرائی ہے کہ تقرریاں اور تبادلے کرنا وزیراعظم کا اختیار ہے۔ ایک ایسے وقت جبکہ حکومتی مشینری ناجائز تقرریوں، غلط بخشیوں، نااہلی اور لوٹ کھسوٹ کے باعث تیزی سے زوال کی جانب گامزن ہے، عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کیا جارہا ہے جس کا کسی جمہوری معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کو دہشت گردی، اداروں کی زبوں حالی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بیروزگاری، بین الاقوامی دبا سمیت سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ حکمرانوں کی طرف سے مفاہمت اور قومی یکجہتی کے صرف زبانی دعوے سنائی دے رہے ہیں۔ عملی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ پچھلے کئی برس سے عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد سے گریز کے جو حربے اختیار کئے جارہے ہیں ان سے یہ تاثر قوی ہوا ہے کہ حکمران ہر صورت میں من مانی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عدالتی احکامات پر عمل کرنے کی پاداش میں 11 ۔ اعلی افسران اپنے عہدوں سے ہٹائے جاچکے ہیں جبکہ حکم عدولی کے مرتکب افراد کو ترقی و مراعات کا مستحق گردانا جارہا ہے۔ اس پس منظر میں یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ بعض سرکاری افسران نے سپریم کورٹ کے احکامات نظرانداز کرنے کے حکومتی دبا کے باوجود لب و لہجہ تبدیل کیا ہے اور اپنا رخ قانون کی بالادستی کی سمت میں رکھنے کو ترجیح دی ہے۔ مگر اس کے پہلو بہ پہلو جب وزیراعظم جیسی اہم شخصیت کے حوالے سے ایسی باتیں سامنے آتی ہیں کہ ہم رہیں نہ رہیں، اپنے اختیارات سے دستبردار نہیں ہونگیتو انہیں کسی طرح بھی آئین و قانون کی بالادستی کا احترام سمجھنا ممکن نہیں رہتا۔ کیونکہ آئین کی تشریح بہر حال عدلیہ کا خصوصی اختیار ہے اور جس معاشرے میں حکمراں اختیارات کے استعمال سمیت کسی بھی معاملے میں اپنی تشریح کو عدلیہ کے احکام پر فائق سمجھیں اس میں قانون کی بالادستی کا دعوی مذاق اور جمہوریت کا نعرہ فریب کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان حالات میں جہاں بھوک، افلاس، بدنظمی اور لوٹ کھسوٹ کے شکار عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہورہا ہے وہاں حزب اختلاف کے لئے بھی ممکن نہیں رہا ہے کہ وہ فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے مزید برداشت کرے۔ حکومت کی طرف سے عدلیہ کے احکامات اور ہدایات پر عملدرآمد کے باب میں کئی برسوں سے جو رویہ نظر آرہا ہے اسے نرم سے نرم الفاظ میں بھی غیر ذمہ دارانہ اور مضحکہ خیز کہا جاسکتا ہے۔ فاضل جج صاحبان نے بلاشبہ غیر معمولی ضبط و تحمل کا ثبوت دیتے ہوئے حکمرانوں کو اصلاح احوال کی ہر مہلت فراہم کی ہے۔ لیکن چینی کی چور بازاری روکنے سمیت عوامی مشکلات سے تعلق رکھنے والے معاملات ہوں یا سوئس عدالت کو خط لکھنے سے لیکر این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے کو متاثر کرنے والے حربوں سے متعلق ہوں، حکومت کے رو یے سے ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ وہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کے لئے کسی طور بھی تیار ہے۔ اس کے برعکس اٹارنی جنرل سمیت اہم عہدیداروں کو سپریم کورٹ میں پیشی کے مواقع پر تبدیل کرنے، عدالت کی طرف سے طلب کردہ رپورٹیں پیش کرنے سے گریز سمیت ایسے طریقے اختیار کئے جاتے رہے ہیں جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ توہین عدالت کی تمام حدیں پار کرلی گئی ہیں۔ عوامی حلقے بڑے افسوس کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ حکمرانوں نے امن و امان، معاشی بحالی اور روزگار کی فراہمی سمیت اپنے متعین فرائض سے روگردانی کرکے کرپشن، لوٹ کھسوٹ اور انارکی کی جو راہ اختیار کی ہے وہ اس سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں اور جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں جن میں آئینی میعاد پوری کرنا اور اس دورانیے میں کئے گئے کاموں کی جوابدہی ممکن نہ ہو۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امن و امان سمیت کئی شعبوں میں ملکی حالات موجودہ حکومت سے پہلے بھی قابل رشک نہیں تھے۔ لیکن پچھلے ساڑھے تین برسوں کے دوران کیفیت یہ ہوچکی ہے کہ پاکستانی کرنسی بے وقعت ہوچکی ہے، صنعتیں بند ہونے کے باعث بیروزگاری میں غیر معمولی اضافہ ہوچکا ہے۔ خط غربت سے نیچے جانے والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے، خودکشی کی شرح میں اضافہ ہوچکا ہے۔ ٹیکسٹائل سمیت متعدد شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنا سرمایہ دوسرے ممالک میں منتقل کرچکے ہیں۔ امریکی ڈرون حملوں اور افغان سرحد سے زمینی لشکر کشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے ساتھ ساتھ قوم کو دبا اور دھمکیوں کی صورت حال کا سامنا ہے۔ ریلوے کا نظام تباہ ہوچکا ہے، اسٹیل ملز، پیپکو اور دوسرے ادارے انتہائی خراب حالت میں ہیں۔ لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا، رشوت مافیا سمیت ہر قسم کی برائیاں تیزی سے پنپ رہی ہیں۔ پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں آئے روز اضافے کے بعد غریبوں کو ایک وقت کی روٹی سے محروم کرنے کے لئے گندم کی قیمت بڑھانے کی بھی باتیں کی جارہی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کو نا کام ریاست کے بنانے کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ان حالات میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ملکی بقا و سا لمیت کے اس نازک مرحلے کی سنگینی کو ملحوظ رکھا جائے اور تصادم کے امکانات سے بچنے کی تدابیر کی جائیں۔ایسے میں حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پہل کاری کرے اور کوئی بھی ناخوشگوار صورت حال پیدا ہونے سے قبل ایسے اقدامات کرے جن کے ذریعے اپوزیشن کی شکایات کا ازالہ ہو، عدلیہ سے تصادم و محاذ آرائی کے تاثر کی نفی ہوسکے اور موجودہ نظام سے عوام کی بیزاری کی شدت کو کم کیا جا سکے۔ حالات اس نہج پر جاپہنچے ہیں کہ اب حقائق سے آنکھیں چرانے کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ خود حکمراں جماعت کے بعض حلقے سڑکوں پر عوامی عدالتیں لگنے کے خدشات ظاہر کررہے ہیں ۔اب بھی وقت ہے کہ آئین و قانون کی بالادستی، عدلیہ کے احترام اور عوامی مسائل کے حل کے لئے کچھ کام کرلیا جائے۔ اذیت ناک صورتحال کے ستائے ہوئے عوام سڑکوں پر نکل آئے تو سب سے زیادہ نقصان حکمرانوں کا ہوگا۔ گندم کی امدادی قیمت میں اضافے کی تجویز جنگ اکنامک سیشن میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین معیشت، تاجروں اور صنعتکاروں کے نمائندوں نے صوبوں کی جانب سے وفاق کو گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ کرنے کی سمریوں پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد جب خوراک ایک صوبائی مسئلہ بنا دیا گیا ہے تو پھر صوبائی حکومتوں کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں گندم کے نرخ مقرر کرنے چاہئیں اور گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ کیا گیا تو یہ قو م و ملک کے لئے بے حد تباہ کن ہو گااور مہنگائی کے مارے ہوئے لوگ جو پہلے ہی بمشکل ایک وقت کی روٹی پر گزارہ کر رہے ہیں بھوک سے مر جائیں گے۔ اس پس منظر میں انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ چونکہ الیکشن کا موسم آ رہا ہے اس لئے اس قسم کے شوشے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں موجود بڑے بڑے جاگیرداروں کی طرف سے چھوڑے جا رہے ہیں جو اپنی انتخابی مہم کے لئے رقم اکٹھی کرنے کے خواہاں ہیں حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کی طرف سے گندم کی امدادی قیمت میں سو فیصد کئے جانے والے پہلے اضافے کے فوائد بھی عوام تک نہیں پہنچنے دیئے اورا ن کے اشارے پر کام کرنے والے آڑھتی اور ذخیرہ اندوز اب بھی کسانوں کی کھڑی فصلیں کم قیمت پر نہ صرف یہ کہ ایک ایک سال پہلے خرید لیتے ہیں بلکہ گندم مارکیٹ میں آ جانے کے بعد بھی اس کی خریداری میں تاخیر کر کے مجبور کسانوں کو مقررہ قیمت سے کہیں کم نرخ ادا کرتے ہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ کسانوں کو سستی کھاد اور بیجوں کے علاوہ انہیں جدید زرعی مشینری بھی ارزاں نرخوں پر فراہم کی جائے تاکہ ان کا حقیقی فائدہ ہو لیکن گندم کی امدادی قیمت میں اضافے کی کوئی مہم جوئی نہ کی جائے کیونکہ یہ ایک مہلک قدم ہو گا۔