تحریر: طارق حسین بٹ کون زیادہ طاقتور ہے جنرل پرویز مشرف کی دبئی روانگی اس سوال کا جواب دینے کیلئے کافی ہے۔ ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ کو جنرل پرویز مشرف نے ایک شب خون کے ذریعے میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو بر طرف کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ فوج کی طاقت کو کھلا مظاہرہ تھا۔اس مظاہرے پر مسلم لیگ (ن) کسی قسم کا بھر پور احتجاج کرنے میں ناکام رہی تھی۔ پی پی پی نے بھی اس شب خون کو اپنی بقا کی جنگ میں ناگزیر سمجھ کر قبول کر لیا تھا کیونکہ ١٩٩٧ کے انتخابات میں پورے ملک سے جس طرح پی پی پی کا صفایا ہو گیا تھا اس کیلئے ضروری تھا کہ میاں محمد نواز شریف کے ساتھ کوئی اس طرح کا تائیدِ غیبی والا ہاتھ ہو جاتا تا کہ پورے ملک میں پی پی پی کی موجودگی ممکن ہو سکتی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہ کہہ کر کہ فوج مقررہ مدت میں نئے انتخابات کروا کر اقتدار منتخب نمائندوں کو سونپ دے اس شب خون کو غیر مبہم انداز میں جائز قرار دینے کی ایک خاموش کوشش تھی جس کا مسلم لیگ (ن ) نے بڑا برا منایا تھالیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے۔جنرل پرویز مشرف کا اقتدار جب طول پکڑتا چلا گیا تو پھر مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کر کے جمہوری جدوجہد میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کا عہد کیا لیکن ابھی میثاقِ جمہو ریت کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ پی پی پی نے جنرل پرویز مشرف سے این آر او کر کے مسلم لیگ (ن) کی کمر میں خنجر گھونپ دیا جس پر مسلم لیگ (ن) نے پی پی پی پر دل کھول کر اپنی بھڑاس نکالی جس سے میثاقِ جمہوریت مذاقِ جمہوریت بن کر رہ گیا۔
PML Q
٢٧ دسمبر ٢٠٠٧ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد فروری ٢٠٠٨ کے انتخابات میں جنرل پرویز مشرف کی اپنی جماعت مسلم لیگ (ق) اعلی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکی جس کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف کیلئے اپنے اقتدار کی بقا کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ ان انتخابات میں پی پی پی ملک کی اکثریتی جماعت بن کر ابھری تو آصف علی زرداری نے میثاقِ جمہوریت کی روح کے مطابق مسلم لیگ(ن) کو شریکِ اقتدار کیا اور دونوں نے چند ماہ باہم مل جل کر کام کیا لیکن جلد ہی دونوں کی راہیں جدا ہو گئیں لیکن اسمبلیاں آئینی مدت پوری کر گئیں ۔ مئی ٢٠١٣ کے انتخابات میں پی پی پی کا سوائے سندھ کے سارے ملک سے صفایا ہوگیا۔مارچ ٢٠٠٧ میں چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کی معزولی کے نتیجے میں جنم لینے والی وکلاء تحریک سے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے سارے ستون ڈگمگانے لگے تو جنرل پرویز مشرف نے نومبر ٢٠٠٧ میں ایمرجنسی کا نفاذ کر کے سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں لیلئے لیکن معزول چیف جسٹس نے اس ایمرجنسی کو خلافِ آئین قرار دے ڈالا ۔نئے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے اگر چہ سپریم کورٹ کے اس حکم کو کالعدم قرار دے کر ایمرجنسی کو آئینی قرار دے دیا۔
لیکن جنرل پرویز مشرف کیلئے اقتدار پر فائز رہنا ممکن نہ رہا کیونکہ ٢٧ دسمبر ٢٠٠٧ کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر پوری قوم نے جنرل پرویز مشرف کی بے رحم سفاکیت کے خلاف غم و غصے کا جو مظاہرہ کیا اس میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا جانا یقینی ہو گیا۔این آر او کے تحت محترمہ بے نظیر بھتو پہلے ہی پاکستان پہنچ چکی تھیں جبکہ سعودی عرب کی مداخلت پر میاں محمد نواز شریف کو بھی پاکستان واپسی کی اجازت دینی پڑی۔ فروری ٢٠٠٨ کے انتخابات تو محض ایک رسم تھے جنرل پرویز مشرف کا اقتدار تو عملا ٢٧ دسمبر ٢٠٠٧ کو اپنے انجام سے دوچار ہو چکا تھا۔بے نظیر بھٹو کے لہو نے جنرل پرویز مشرف کا قتدار ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا تھا۔
Benazir Bhutto
اس نے مسلم لیگ (ق) کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہا لیکن ناکام رہا کیونکہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد لوگ اس کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں تھے ۔اگر میں یہ کہوں کہ بی بی کا لہو ہی در حقیقت جنرل پرویز مشرف کی طاقت کے گھمنڈ کو توڑنے کی سب سے بڑی قوت تھا تو بے جا نہیں ہوگا۔عوام جنرل پرویز مشرف ،عالمی طاقتوں اور پی پی پی کے چند غداروں کو اپنی قائد کے قتل کا ذمہ دار سمجھتے تھے ۔پی پی پی کی حکومت ہونے کے باوجود بے نظیر قتل کی گتھی نہ سلجھنا اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ درونِ خانہ کئی اہم راہنما اس قتل کی سازش میں شریک تھے ۔
نومبر ٢٠٠٧ کی ایمرجنسی کے نفاذ پر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین سے بغاوت کا مقدمہ قائم ہوا جو کئی نشیب و فراز کے بعد ١٨ مارچ کو جنرل پرویز مشرف کی دبئی روانگی پر منتج ہوا۔ ہونا تو یہ چائیے تھا کہ ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ کو شب خون مارنے کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ درج کیا جاتا اور انھیں آرٹیکل چھ کے تحت تختہِ دار پر لٹکایا جاتا لیکن مسلم لیگ (ن) نے ایسا کرنے کی بجائے نومبر ٢٠٠٧ کی ایمرجنسی کے پیچھے خود کو چھپانا چاہا۔یہ بات سب کے علم میں ہے کہ عدالتوں سے جنرل پرویز مشرف کے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے لہذا مسلم لیگ (ن) اسی کشیدگی سے سیاسی فائدہ اٹھا نا چاہتی تھی ۔ پی پی پی نے بڑا شور مچایا کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف ١٢ اکتوبر کے اقدام کے خلاف مقدمہ دائر کیا جائے لیکن مسلم لیگ (ن) نے پی پی پی کی یہ منطق تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ فوج اس طرح کے کسی مقدمے کی اجازت دینے کی حامی نہیں تھی اور فوج کی ناراضگی ایک اور مارشل لاء کو دعوت دینے کے مترادف تھی۔عجیب بات تو یہ ہے کہ پی پی پی نے اپنے دورِ حکومت میں آرٹیکل چھ کے تحت اس طرح کی کاروائی کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ الٹا جنرل پرویز مشرف کو گارڈ اف آنر دے کر ایوان صدر سے رخصت کیا۔
Supreme Court
سپریم کورٹ میں حالیہ تبدیلیوں کے بعد عدالت نے بھی مسلم لیگ (ن) کو کاندھا دینے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف کی ملک سے روانگی ممکن ہو سکی۔کہتے ہیں کہ فوج جنرل پرویز مشرف کے ٹرائل پر نا خوش تھی لہذ ااسکی کوشش تھی کہ جنرل پرویز مشرف کو کسی طرح سے ملک سے باہر جانے کی جازت دے دی جائے تا کہ سیاسی طور پر کسی ٹکرائو کی نوبت نہ آئے۔چند سال پہلے بھی اسی طرح کی ایک کوشش ہو ئی تھی جس میں جنرل پرویز مشرف کی عدالت میں پیشی کے بعد جنرل پرویز مشرف کو ملک سے روانہ ہو جانا تھا۔سعودی طیارہ بھی ان دنوں اسلام آباد میں تیار کھڑا تھا لیکن میاں محمد نواز شریف اپنے وعدہ سے منحرف ہوگئے اور یوں جنرل پرویز مشرف کوبیرونِ ملک جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا جس سے فوج اور میاں محمد نواز شریف میں دوریوں نے جنم لیا۔جنرل راحیل شریف اس زمانے میں آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہو چکے تھے لہذا وہ بھی جنرل پرویز مشرف کی باعزت روانگی کے حامی تھے۔
کچھ حلقوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگست ٢٠١٤ کو تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کا لا نگ مارچ اور دھرنا میاں محمد نواز شریف کو فوجی طاقت کے سامنے سرنگوں کرنے کا عملی مظاہرہ تھا۔اس نازک موقعہ پر پو ری پارلیمنٹ میاں محمد نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہو گئی لیکن جو کچھ ہونا تھا وہ ہو کر رہا ۔اس دھرنے کے عواقب سے ڈرا دھمکا کر فوج نے میاں محمد نواز شریف سے بہت سے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے اور یوں جنرل راحیل شریف پاکستان کے سب سے طاقتور انسان بن کر ابھرے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ضربِ عضب ان کی طاقت کی اصلی بنیا د ہے لیکن اس سے بھی انکار کی گنجائش ممکن نہیں کہ عمران خان اور علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی جنرل راحیل شریف کی کمانڈنگ پوزیشن کو مستحکم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
علامہ طاہرا لقادری کو تو فوج کے ساتھ کھڑا ہونے کی قیمت سانحہ ماڈل ٹائون میں اپنے کارکنوں کی قربانی کی شکل میں بھی دینی پڑی لیکن اس کے باوجود فوج سے ان کی قربت کم نہ ہوئی۔ ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ فوج کی قوت کا دن تھا۔پھر نومبر ٢٠٠٧ اسی طاقت کا اعادہ ہ تھا جبکہ ١٨ مارچ ٢٠١٦ نے اس طاقت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔وہ سارے لوگ جو جنرل پرویز مشرف کو تختہِ دار پر لٹکتا ہوا دیکھنے کے متمنی تھے انھیں مایوسی ہوئی ہے کیونکہ مقتدر حلقے ان سب سے زیادہ طاقتور ثابت ہوئے ہیں۔،۔