پاکستان میں مارچ اور دھرنوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ بینظیر بھٹو شہید،نواز شریف اور مرحوم قاضی حسین احمد کے مارچ اور دھرنے خاصی شہرت کے حامل رہے ہیں۔ خاص طور پر قاضی صاحب مرحوم کے ملین مارچ اور دھرنوں کی مثال دی جاتی تھی۔ اس تاریخ کی روشنی میں 13 جنوری 2013کو بانی و سرپرست تحریک منہاج القرآن انٹر نیشنل اور چیرمین پاکستان عوامی تحریک شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کا لاہور سے شروع ہونے ولا عوامی مارچ اور 14 جنوری تا 17 جنوری 2013 اسلام آباد میں شاہراہ دستور کے ڈی چوک پر دیا جانے والا دھرنا پاکستان کی تاریخ کا وہ پہلا کامیاب دھرنا تھا۔
جس میں منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں ، قادری صاحب کے عقیدت مندوں اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے نیٹ ورک سے وابستہ ذمہ داران کے علاوہ پاکستان میں حقیقی عوامی جمہوریت کے پرستاروں کی کثیر تعداد نے سخت سردی اور طوفان باد و باراں کے باوجود ثابت قدمی سے عوامی طاقت کا انتہائی پر اثر، پرامن ، منظم اور شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی مارچ اور دھرنے کی ایک نئی تاریخ مرتب کی ہے۔ اس بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہ وہاں پانچ ہزار لوگ تھے، پچیس ہزار ، پچاس ہزار یا لاکھوں کی تعداد میں ، دیکھنا یہ ہے کہ انہوں نے کیا حاصل کیا ، کیا یہ انقلاب کی ناکامی تھی ، کیا دھرنا بیکار ثابت ہوا ، کیا یہ صرف ڈاکٹر طاہر القادری کی شہرت کا باعث بنا ، کیا یہ ڈرامہ تھا ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ مبالغہ آرائی کو چھوڑ کر وہاں عوام کا ایک جم غفیر تھا ، جو اس سے پہلے شاہراہ دستور پر جمع نہیں ہوا۔
تعداو کا اندازہ تصویر سے لگ سکتا ہے ، جو حاسد ، مخالف سیاسی کارکنوں اور تنخواہ دار مخالف اینکروں کی طرح جھوٹ نہیں بولتی۔ ورنہ رپورٹنگ کا عالم یہ تھا کہ آخر وقت تک حامد میر کے شو میں انکا رپورٹر کہتا رہا کہ لوگ گھاس پر تھے ،سڑک پر کوئی نہ تھا ، جبکہ تصویریں اس کی دروغ گوئی پر ہنس رہی تھیں۔ عوامی مارچ اسلام آباد ڈکلیر یشن میں ڈاکٹر صاحب کے چاروں مطالبات بنیادی طور پر منظور کر لئے گئے اور ان کی قانونی مجبوریوں کو دور کرنے کے لئے ڈاکٹر صاحب کی مرضی سے قانونی ماہرین پر مشتمل پینل قائم کر دیا گیا۔ پہلا اہم ترین مطالبہ ، یعنی دستور پاکستان کی شقوں 63،62 اور 218 کے جز تین کی پابندی نہ صر ف من وعن تسلیم کی گئی، بلکہ اس پر عمل درآمد کے لئے الیکشن کمیشن کو ایک ماہ کا وقت دیا گیا۔
Pakistan Elections
دوسرا مطالبہ حکومت کا فوری خاتمہ تھا،جس پر یہ طے ہوا کہ حکومت فوری نہیں تاہم مقررہ وقت سے قبل ختم ہوگی، تاکہ انتخابات کے لئے60 دن کی شرط کی بجائے 90 دن کی شرط لاگو ہو جائے۔جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو امیدواروں کی چھانٹی کا وقت مل جائے۔ یہی اس مطالبہ کااصل مقصد تھا، جو حل ہو گیا۔ تیسرا مطالبہ الیکشن کمیشن کی نئی تشکیل کا تھا،جو آئینی پیچیدگیوں کے باوجود غور طلب قرار دیا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر کے طور پر جسٹس فخرالدین ابراہیم جی(ریٹائر ڈ)پراعتماد کا اظہار کیا گیا۔جبکہ صوبائی الیکشن کمشنرز پر تحفظات کا حل تلاش کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اسی طرح چوتھا اور آخری مطالبہ نئی عبوری حکومت کے قیام سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کا تھا ، تا کہ ایک غیر جانبدار وزیر اعظم ،عبوری حکومت کے تحت آزادانہ ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کروا سکے۔
اس مطالبہ میں تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک یہ منوانے میں کامیاب رہی کہ عبوری وزیر اعظم کے نام کا فیصلہ کرنے سے پہلے ان کی منظوری بھی حاصل کی جائے گی ، یعنی ان کی حیثیت اس فیصلے میں مشاورتی نہیں کلیدی ہو گی۔ اس معاہدہ کے قانونی پہلوؤں اور اسکی تمام شقوں پر عمل در آمد کا طریقہء کار وضع کرنے کے لئے آئندہ اجلاس تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سکریٹر یٹ ، لاہور میں ہونا قرار پائے۔ گویا حکومت نے جملہ مطالبات تسلیم کر لئے۔ جن کے مطابق دستور پاکستان کی شقوں،63،62 اور218 کے جز 3 پر سختی سے عمل ہو گا اور کوئی شخص پارلیمان کا رکن بن سکتا ہے اگر وہ: اچھے کردار کا حامل ہواور عمومی طور پر اسلامی اقدار کی مخالفت کرنے کی شہرت نہ رکھتا ہو۔ اسلامی تعلیمات ،اسلام کے بیان کردہ فرائض اور اسلام کی رو سے واضح گناہ کبیرہ سے واقفیت رکھتا ہو۔ دانش مند ، سمجھدار ، دیانت دار ، عادل ، امین ، نیک ہو۔ اوباش ، آوارہ ، بدکردار ، فضول خرچ اور عدالت سے سزا یافتہ نہ ہو۔ یہ شرائط کسی ہندویا غیر مسلم کے لئے نہیں ہیں،البتہ امیدواروں کو اچھی شہرت کا حامل ہونا چاہئے۔
کوئی شخص پارلیمان کا رکن نہیں بن سکتا اگر وہ: جسے کسی عدالت نے مخبوط الحواس قرار نہ دیا ہو۔ جسے نادہندہ دیوالیہ قرار نہ دیا گیا ہو۔ جوپاکستان کی شہریت چھوڑ چکا ہو اور غیر ملک کی شہریت اختیار کر چکا ہو۔ جو نظریہء پاکستان،پاکستان کی بالا دستی ، استحکام اورسا لمیت کے خلاف کام کرنے کی وجہ سے کسی عدالت سے سزا یافتہ نہ ہو اور اسے رہا ہوئے 5 سال سے زیادہ عرصہ نہ گزر چکا ہو۔ کسی اخلاقی جرم کے نتیجہ میں اسے دو سال قید نہ ہوئی ہو اور اسے رہا ہوئے5 سال سے زیادہ نہ ہو چکے ہوں۔ اسکے ، اسکی بیوی یا اسکے کفالت شدہ افرادکے نام پر20 ملین کا قر ضہ ،مطلوبہ تاریخ کے سال بھر بعد تک واپس نہ کیا یا معاف نہ کرایا گیا ہو۔ اس نے ،اسکی بیوی یااسکے کفالت شدہ افراد نے،حکومتی بل اور یوٹیلٹی بلز،جس میں ٹیلیفون ، بجلی ، پانی،گیس کے بلز شامل ہیں ،کاغذات امیدواری جمع کرانے سے چھ ماہ قبل ادا نہ کر دئے ہوں۔ جسے کسی وجہ سے فی الوقت نا اہل قرار نہ دیا گیا ہو۔
Election Commision Pakistan
اسکے علاوہ پارلیمان میں پارٹی کی رکنیت سے استعفے ٰدینے ،پارٹی بدلنے،پارٹی کے خلاف وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ یا کسی اور انتخاب کے لئے اور اعتماد یا عدم اعتماد کی تحریک پرووٹ ڈالنے کی وجہ سے ،پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کی درخواست پررکن پارلیمان کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ میں اپنے پچھلے کالم میں ائین پاکستان کی دفعہ 218 کے جز 3 کی وضاحت کر چکا ہوں ، جسکے مطابق الیکش کمیشن پر لازم ہے کہ وہ انتخابات کو ایماندارانہ ، منصفانہ ، غیرجانبدارانہ اور آئین و قانون کے مطابق بنانے کے لئے ہر ممکن اقدام کرے اور انتخابات میں ، دھونس اور دھاندلی کے ناجائز طریقہء کار سے بچنے کی ضمانت مہیا کرے ، تاکہ ایک شفاف الیکشن کے لئے ہر قسم کی کرپشن کا راستہ روکا جا سکے۔
گویا اس متفقہ اعلانیہ میں وہ اہم اوربنیادی نکات موجود ہیں،جن پر عمل درآمد سے پاکستان میں خون کا اک قطرہ بہائے بغیر انقلاب کا پہلا مرحلہ بخیر و خوبی طے کیا جا سکتاہے۔ اسکے باوجود ڈاکٹر طاہر القادری کے سیاسی،سماجی اور مسلکی مخالفین انکے عوامی مارچ اور دھرنے کی ناکا می کا چرچا کرنے سے باز نہیں آتے۔ ہر شخص کو ڈاکٹر صاحب کی اس بے مثال کامیابی کے آئینہ میں اپناہی چہرہ نظرآ رہا ہے۔کسی کو مردہ چوہا نظر آتاہے اور کسی کوشیر کی دہاڑ سنائی دیتی ہے۔ سب سے زیادہ پریشان وہ لوگ ہیں،جنکے خیال میں اگلی مرتبہ اقتدار کا پھل انکی جھولی میں ، بس گرنے ہی والا ہے۔اب خوش فہمیوں پر تو پابندی نہیں اور ویسے بھی ”بلی کو(شیر کو نہیں)خواب میں چھیچھڑے ہی نظر آتے ہیں۔” مگر اس معاہدہ کادکھ انہیں بہت ہے۔ وہ تو لاشوں اور زخمیوں کے منتظر تھے ، کشت و خون دیکھنا چاہتے تھے ، اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کو سچ ثابت کرنا چاہتے تھے۔
وہ اب کیا کریں؟نہ فوج آئی،نہ عدالت نے دخل دیا،نہ کوئی ہنگامہ ہوا،نہ پولیس کا لاٹھی چارج ہوا اورنہ رینجرز نے فائر کیا۔ جمہوریت بھی نہیں گئی۔ اور تو اور کسی غیر ملکی طاقت نے مداخلت بھی نہیں کی۔ پھر پیپلز پارٹی اور اتحادیوں نے تحریک منہاج القرآن کی بات کیوں مان لی؟ پاکستان عوامی تحریک کے نام سے معاہدہ کیسے ہو گیا؟انہوں نے تو آنے والے الیکشن میں اقتدار کے خواہشمند ، کرسی کے پجاریوں اور نام و نہاد جمہوریت کے ٹھکیداروں کو یکجا کر کے سوچ لیا تھا کہ معرکہ مار لیا ، مگر ڈاکٹر صاحب کے دھوبی پاٹ نے سیاسی دنگل کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اب انکی حالت یہ ہے کہ سانپ نکل گیا لکیر پیٹ رہے ہیں۔بات کرو تو کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔انکا رویہ روز بروز بچگانہ، عامیانہ اورغیر ذمہ دارانہ ہوتا جا رہا ہے، انکی زبان گھٹیا،بازاری،مضحکہ خیز اور غلیظ ہوتی جارہی ہے،انکوٹا ک شوز میں دیکھ کر کراہت ہوتی ہے اور میزبانوں کی تعفن آمیز گفتگو سن کر الٹی آنے لگتی ہے۔اچھے خاصے نیک نام،شریف گھرانوں کی خواتین اور مرد اپنے ماں باپ کا نام بد نام کر رہے ہیں۔ پرامن انقلاب کی تازہ مثال مشرقی اور مغربی جرمنی کا اتحاد ہے،مگر ہمارے عالمی سیاست سے نابلد،وہ تمام دانشور ، اینکرز اور سیاسی کارکن،جو عوام کی اس عظیم الشان کامیابی کو ہضم نہیں کر سکے ،کنویں کے مینڈک کی طرح اپنے اپنے دائروں میں گھوم رہے ہیں۔
Tahir Ul Qadri
ڈاکٹر صاحب کا ایک اور کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تحریک چلا کرعوام دوست اور عوام دشمن طاقتوں کے درمیان لکیر کھینچ دی ہے۔ گلا پھاڑ پھاڑ کر جمہوریت کا راگ الاپنے والی ساری سیاسی،سماجی ،مذہبی جماعتیں،جمہوریت کے خود ساختہ چمپئن اینکرز، صحافی، کالم و تجزیہ نگار اور سرمائے کے بل پر سیاست و صحافت کے مقدس پیشے پر قابض ٹولہ ایک طرف کھڑا ہے اور پاکستان میں حقیقی عوامی جمہوریت کے نفاذ کے خواہش مند دوسری طرف،جبکہ کچھ لوگ درمیان میں کھڑے ابھی تک پلڑوں کا اندازہ لگا رہے ہیںکہ کس پلڑے میں اپنا وزن ڈالیں۔ اگرہم دستور پاکستان کی مندرجہ بالا شقوں کا بغور مطالعہ کریں تو ہم پر واضح ہو جائے گا کہ ان شقوں پر انکی روح کے مطابق عمل کرنے سے ہم پاکستان کی سیاست کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔ یہ شقیں موجود تھیں مگر الیکشن سے قبل ان پر عمل کا رواج نہ تھا۔بعد میں کی جانے والی پٹیشنز میں کئی سال بعد فیصلہ ہوتا تھا۔
اگر امیدواروں کی تطہیر کا عمل پہلے ہو جائے،الیکشن کمیشن بااختیار و غیر جانبدارہو اور انتخابات کا عمل صاف و شفاف اور منصفانہ ہو، تو ملک میں حقیقی عوامی جمہوریت کا نفاذ ممکن ہے۔ یہ کاروان انقلاب کا پہلا پڑائو اورسفر انقلاب کا پہلا مرحلہ ہے۔ ابھی کئی اور مراحل باقی ہیں۔ پہلا مرحلہ کامیابی سے طے ہوا۔منزل ابھی دور ہے،لیکن راہ کا تعین کر لیا گیا ہے۔ لہٰذا جمہوریت کے نام پر واویلا مچانے والوں،اسلام آباد کے مظاہرین کی تکلیفوں پرمگر مچھ کے آنسو بہانے والوں، بزرگوں، نوجوانوں، عورتوں اور بچوں کے جذبہ حریت اور ولولہ جمہور کو”ہیومین شیلڈ” کا اسرائیلی نام دینے والوں ، عوامی جمہوریت کے نام لیوائوں کی تذلیل اور کردار کشی کرنے والوں،دہری شہریت کے حامل محب وطن پاکستانیوں کی توہین کرنے والوں ،پاکستان کے نا عاقبت اندیش مہر بانوںسے درخواست ہے کہ اس معاہد ہ کی افادیت کا اندازہ لگاتے ہوئے، اس کا مذاق اڑانے اور اسکی راہ میں روڑے اٹکانے کے بجائے،اس پر عمل درآمد کی کوششوں میں تعاون کریں۔ یہی وقت کی آواز اور دانشمندی کا تقاضہ ہے۔ حال پر کیوں تری نظر نہ ہوئی ٭ کیوں یہ کہتا ہے کہ خبر نہ ہوئی