امریکہ (جیوڈیسک) قوم کی مظلوم بیٹی عافیہ صدیقی کی سزا کے خلاف پاکستانی حکومت تو بیان بازی سے آگے نہیں بڑھ سکی تاہم امریکی سیاستدان اور سماجی تنظیمیں متحرک ہو گئیں جن کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے عافیہ کی رہائی کیلئے آج تک امریکہ کو کوئی رسمی درخواست نہیں کی۔ عافیہ صدیقی کو القاعدہ سے تعلقات کے الزامات کے بعد دو ہزار تین میں کراچی سے اغوا کر کے افغانستان لے جایا گیا جہاں اس پر امریکی اہلکاروں پر حملے کا بھونڈا الزام لگایا گیا تاکہ اسے امریکہ کے حوالے کرنے کا بہانہ مل سکے۔
امریکیوں نے اسے گوانتا نامو بے جیسے بدنام زمانہ عقوبت خانے میں رکھا جہاں اس ناتواں خاتون پر جسمانی و ذہنی تشدد کی انتہا ہی نہیں کی گئی بلکہ اسے برہنہ کر کے بھی تذلیل کی جاتی رہی۔ ظلم کی یہ داستان اس انتہا کو پہنچی کہ اب امریکی عوام بھی سراپا احتجاج ہے۔ عافیہ کو دو مرتبہ اغوا کیا گیا۔ ایک مرتبہ پاکستان اور دوسری مرتبہ افغانستان سے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ انسانی حقوق پر بھی حملہ ہے۔ امریکی عدالتی نظام کے تحت اب اس مسئلے کوئی قانونی حل بھی نہیں کیونکہ مقدمہ ختم ہو چکا، اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے سیاسی۔
امریکی عدالت کے سامنے عافیہ نے جب کبھی ظلم و جبر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا چاہی تو اسے کمرہ عدالت سے نکال دیا گیا۔ حقائق موجود تھے نہ شہادتیں لیکن امریکی عدالت نے امریکی ظلم وتشدد کے بعد چلنے پھرنے سے مجبور بیچارگی کی اس تصویر کو چھیاسی سال قید با مشقت سنا دی۔ مقدمے میں نہ تو حقائق تھے نہ ہی ثبوت اور اس بات کو بھی بتانے کی اجازت نہیں تھی کہ ڈاکٹر عافیہ کو پانچ سال کہاں رکھا گیا نہ ہی کہیں سے اس کے فنگر پرنٹس ملے، نہ وہ پستول پیش کیا جا سکا جس سے فائرنگ کا الزام گھڑا گیا۔
بربریت اور انصآف کے قتل کی یہ کہانی کسی نے اڑائی نہیں یہ پول تو امریکی اراکین کانگرس خود کھول رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بہت ہو چکی اب عافیہ کو رہا کیا جائے۔ عافیہ کی مظلومیت پر سیاسی بیان بازی تو صدر اور وزیر اعظم کی سطح پر بھی ہوتی رہی ہے لیکن قوم کی اس مظلوم بیٹی کیلئے امریکہ سے سرکاری سطح پر ایک بار بھی بات نہیں کی گئی۔