امریکہ : (جیو ڈیسک)ڈاکٹرکم کے علاوہ، عالمی بنک کی صدارت کے دو اور امیدوار ہیں۔ وہ ہیں نائجیریا کی وزیرِ مالیات نگوزی اوکونجو اویالا اور کولمبیا کے وزیرِ مالیات جوزانتونیو اوکیمپو۔ جم یونگ کم پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن میں کام کر چکے ہیں۔تا ہم، برسلز میں قائم یوریپین سنٹر فار انٹرنیشنل پالیٹکس اکانومی کے ڈائریکٹر فریڈریک ایرکسن کہتے ہیں کہ اس عہدے کے لیے سب سے زیادہ حمایت امریکی امیدوار ڈاکٹر کم کو ہی حاصل ہے۔
میرے خیال میں یہ بات پہلے ہی تقریبا طے ہو چکی ہے کہ یہ عہدہ وائٹ ہاوس کے نامزد کیے ہوئے امیدوار کو ملے گا کیوں کہ شاید یورپ اور امریکہ میں ان کے بارے میں مکمل اتفاقِ رائے ہو گا۔ اس طرح جیت انہیں کی ہو گی۔ لیکن میرے خیال میں، دوسرے دو امیدواروں کی طرح ان سے بھی کہا جانا چاہیئے کہ وہ بتائیں کہ وہ عالمی بنک کو کس طرح چلائیں گے ۔ خاص طور سے ان سے یہ پوچھا جانا چاہیئے کہ وہ عالمی بنک کی اصلاح کس طرح کریں گے اور اقتصادی ترقی میں اس کے رول کو کس طرح مضبوط بنائیں گے۔
ایرکسن کہتے ہیں کہ یہ امریکہ میں صدارتی انتخاب کا سال ہے۔ اس لیے اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ کسی امریکی کے سوا کوئی اور عالمی بنک کا صدر بن سکے گا۔ وہ کہتے ہیںاگر یہ امریکہ میں انتخاب کا سال نہ ہو تا، تو بھی امریکہ کی یہی کوشش ہوتی کہ عالمی بنک کا صدر کوئی امریکی ہو۔ لیکن اس سال ان کی خاص طور سے یہی کوشش ہو گی کہ امریکی جیت جائے ۔ ورنہ ریپبلیکنز، صدر اوباما پر خارجہ پالیسی میں اور بیرونی دنیا میں امریکی مفادات کا دفاع کرنے میں، کمزوری دکھانے الزام لگائیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ عالمی بنک کے ماضی کے صدور کے مقابلے میں، اگلے صدر کو زیادہ دباو کا سامنا کرنا پڑے گا۔ہم اب ایسے دور میں رہ رہے ہیں جب بہت سے ترقی پذیر ملکوں نے اپنی معیشتوں کو ترقی دی ہے، اور امریکہ، یورپ اور دوسری قدیمی اقتصادی طاقتوں کو انحطاط کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اور اس طرح ترقی پذیر ملکوں کا یہ رجحان اور مضبوط ہوا ہے کہ وہ عالمی اقتصادی پالیسیوں میں کہیں زیادہ با اثر ہو گئے ہیں۔
ایرکسن کہتے ہیں کہ ترقی پذیر ملک چاہتے ہیں کہ ان کا اثر و رسوخ عالمی بنک تک پہنچ جائے۔اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے ترقی پذیر ملک چاہتے ہیں کہ جب عالمی بنک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے نئے لیڈروں کا انتخاب ہو، تو انتخاب کے عمل میں تبدیلی لائی جائے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جب گذشتہ سال ایک جنسی اسکینڈل کی وجہ سے ڈومینیک اسٹراس کاہن نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سربراہ کی عہدے سے استعفی دیا تو یہ رجحان کھل کر سامنے آ گیا۔ ان کی جگہ فرانس کی سابق وزیرِ مالیات کرسٹین لاگارڈ کا تقرر ہوا۔
یوریپین سنٹر فار انٹرنیشنل پالیٹکس اکانومی کے سربراہ کی نظر میں یہ صورتِ حال بالکل ایسی ہی ہے جیسے جی8 کے ملکوں کے مقابلے میں جی20 کے ملکوں کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے ۔وہ کہتے ہیںترقی پذیر ممالک اب عالمی معیشت کے ایک بڑے حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب کبھی دنیا کے لیڈر نئی پالیسیاں بنانے کے لیے جمع ہوتے ہیں تو ان ملکوں کو بھی مذاکرات کی میز پر موجود ہونا ضروری ہو تا ہے ۔
مثلا اگر آپ 2012 میں اقتصادی ترقی پر نظر ڈالیں، تو دنیا میں 75 فیصد ترقی ان علاقوں کے باہر ہوئی ہے جنہیں قدیم یورپ کے ملک کہا جاتا ہے۔یہ ترقی ایشیائی اور افریقی دونوں ملکوں میں ہوئی ہے ۔ ایرکسن نے کہاترقی پذیر ملکوں کی مشکلات کو اچھی طرح سمجھنا مستقبل میں ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم ہوگا۔جو کوئی بھی عالمی بنک کا سربراہ ہوگا، اسے ترقی پذیر ملکوں کے حالات کو سمجھنا ہو گا۔
ماضی کے مقابلے میں یہ حالات ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف ہیں۔ گذشتہ 10 برسوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ کچھ ملکوں میں انتہائی تیز اقتصادی ترقی ہوئی ہے، جب کہ بعض دوسرے ملکوں میں اقتصادی ترقی کی حالت بہت خراب ہے ۔
ایرکسن کہتے ہیں کہ ترقی پذیر ملک شاید عالمی بنک کے اگلے صدر پر زور دیں گے کہ وہ کریڈٹ اور قرض لینے کے ضابطوں کو آسان بنائیں اور بنک کو طول طویل دفتری ضابطوں سے آزاد کریں۔دوسری چیز یہ ہے کہ مشرقی ایشیا اور افریقہ کے کچھ حصوں کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ملکوں اور ان ملکوں کے درمیان توازن قائم کیا جائے جو تیز رفتار ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اور اس قسم کے ملکوں کو عالمی بنک سے بالکل مختلف قسم کی مدد کی ضرورت ہوگی۔ یہ توازن قائم کرنا مشکل ہو گا لیکن ایسا کرنا بہت اہم ہے ۔
توقع ہے کہ سبک دوش ہونے والے صدر رابرٹ زوئلک کے جانشین کا اعلان عالمی بنک کی موسمِ بہار کی میٹنگ سے پہلے کر دیا جائے گا۔ یہ میٹنگ 20 اپریل کو شروع ہو گی۔