افغانستان میں قران پاک کی تکذیب اوربے حرمتی کے ردعمل میں بپاہونے والے پر تشدد انتشار اور افراط و تفریط نے تاحال دھرتی افغاں کواپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کشیدگی کی اگ نے کابل سے بلوچستان کے امن کے خرمن کو راکھ بنارہی ہے اگر پاک افغان حکام نے اسے بجھانے کی مشترکہ کاوشیں نہ کیں تو دونوں امریکی غلامی کے جہنم میں گلتے سڑتے رہیں گے۔۔ امریکن سکالر بلببرٹ نے 1975میں شائع ہونے والی کتاب بلوچستان وڈ ریمین انڈر دی شیڈو آف افغانستان میں مصنف نے لکھا بلوچستان ہمیشہ افغانستان کے زیر اثر رہے گا اگر کابل میں نکھٹو حکومت قائم ہے تو اسکے منفی اثرات سے بلوچستان محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح بلوچستان کی حالیہ بدامنی کابل انتظامیہ کے لئے درد سر بنی ہوئی ہے۔ امریکی فورسز اور اتحادیوں نے ایک دہائی پر محیط غاصبانہ تسلط کے دورانیہ میں افغان قوم کے ساتھ کئے جانیوالے وعدے وعیدے پورے نہیں کئے۔ گورے قابضین کی وحشت بربریت اور انکل سام کی کہہ مکرنیوں اور عالمی ائل مافیا کی کارستانیاں دیکھ کر پوری افغان قوم ناٹو سے نالاں ہے۔ افغان چاہے پختون ہوں یا ہزارے تاجک ہوں یا قبائلی ریاستی ازادی واگزار کروانے کے لئے بیتاب و بیقرار ہیں۔ وائٹ ہاوس کی افغان پالیسی تضادات کا شکار ہے۔امریکہ ایک طرف اپنی فورسز کی جلد واپسی کا اعلان کرتا ہے مگر دوسری طرف امریکی ماہرین کے ازہان و قلوب میں کئی خدشات جنم لے چکے ہیں جن میں ایک تو یہ ہے کیا افغان سیکیورٹی فورسز انخلا کے بعد وہاں پناہ گزین امریکی فوجی دستوں اور سول ماہرین کے تحفظ کو یقینی بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟ناٹو اور افغان فورس کے مابین عدم اتفاق اعتماد کے فقدان نے صورتحال کو مذید دھندلا دیا۔ عسکری تجزیہ نگاروں اور افغان امور کے ماہرین نے وارننگ دی ہے کہ امریکی افواج اور کرزئی انتظامیہ کے درمیان عدم اعتماد کا بڑھتا ہوا ٹمپریچر تباہ کن اثرات کا پیش خیمہ ہوگا۔
یہ پیشین گوئی درست ثابت ہوئی جب افغان نیشنل فورس کے عہدیدار نے ناٹو کے دو امریکی فوجی افیسر ز کو فائرنگ سے ہلاک کردیا۔نیٹو کے سول امور کے نائب مارک جیکب کا کہنا ہے کہ جب شراکت داروں کے مابین خلش اور رنجش اس حد تک پہنچ جائے کہ اتحادی ایک دوسرے کو قتل کرنے لگیں تب جنگ کے اختتام اور جیت کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ افغان نیشنل فورس میں طالبان کے سرفروش موجود ہیں جو موقع ملتے ہی ناٹو فوجیوں پر فائرنگ کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ مغرب کے معروف دانشور گریگ جیف اپنے تازہ مکالمے> افغانستان میں ہنگامے۔ امریکہ کا مستقبل< میںرقمطراز ہیں کہ افغان فورس میں طالبان کے وفادار موجودہیں۔ امریکی فوجی افغان فوجیوں کے ساتھ کروفر نخوت اور تکبر کا رویہ اپناتے ہیں۔ افغان فوجی اپنی عزت نفس پر انچ نہیں انے دیتے اور نہ ہی وہ دین ربی اور قران پاک کی تکذیب کو برداشت کرتے ہیں۔افغان فوجیوںکی جانب سے اتحادیوں پر فائرنگ کے واقعات میںروزافزوں اضافہ ہورہا ہے۔ قران کریم کی بے حرمتی پر کرزئی نے بھی غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔ ناٹو کے افغان کمانڈر نے فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ناٹو کے ماہرین کو افغان وزارتوں سے واپس بلوالیا۔کرزئی پرتشددواقعات کے خاتمے کی اپیلیں کررہے ہیں۔انتظامیہ کی اہ و بکا کے فوری بعد شمالی قندوز میں مظاہرین نے امریکی ایر بیس پر دستی بم پھینکا جو ہولناک نتائج کا سبب بنا۔ اوبامہ کیمپ کو جنگ کے حوالے سے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اوبامہ متفکر اور بیقرار امریکی قوم کو باور کرانے کی تگ و د کررہے ہیں کہ اگلے سال کے وسط میں نیٹو کا فوجی مشن ختم ہوجائیگا۔
کابل میں امریکی سفیر ریان کرو نے کہا کہ انخلا کے بعد ہمیں صرف یہاں رہ جانیوالے دوستوں کی سیکیورٹی کی فکر لاحق ہے۔ گریگ جیف کے مطابق مخالفین کو روائتی فوجی دستوں کے مقابلے میں مشیروں کے چھوٹے دستوں پرانتقامی کاروائیوںاور حملوں کے زیادہ چانسز ملتے ہیں۔ عراق میں امریکی افواج کو ایسے خطرات و خدشات کا سامنا نہ تھا۔ کابل میں امریکی اور افغان فو٢جیوں کے مابین تہذیبی مذہبی اور ثقافتی اختلافات نے خطرات کو سنگین بنادیا۔افغانستان میں امریکی وزارت خارجہ کے مشیر کے عہدے پر کام کرنے والے سفارتکار کارٹرماٹکسیان کہتے ہیں کہ افغان فوجیوں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کئے جائیں مگر امریکی مشیروں کی سیکیورٹی کے خطرات و امکانات کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ پینٹاگون کے مرتب کردہ شیڈول کے مطابق موسم گرما میں امریکی فورسز کے ایک لاکھ فوجیوں کی تعداد گھٹا کر 68 ہزار ہوجائیگی۔2014 تک ناٹو کے تمام فوجی کابل سے نکل جائیں گے۔ افغانستان میں بطور کام کرنے والے مشیر ویسٹن کا کہنا ہے کہ افغان فورسز کو متحرک رکھنے کے لئے25 ہزار مشیروں کی ضروت ہوگی۔ امریکہ ایک طرف افغانستان سے جلد انخلا چاہتا ہے مگر دوسری طرف وہ ہزاروں مشیروں کو انخلا کے بعد افغانستان میں تعینات کرنے کی پالیسی پر غور کررہا ہے۔ افغانستان میں امریکیوں اور ناٹو کی شکست کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہ٠وسکتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ہورہے ہیں۔ بیرونی دنیا میں طالبان کے سفارت خانوں کی اطلاعات روزانہ میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔ پاکستان امریکہ کا اہم ترین اتحادی ہے مگر ناٹو کی سپلائی لائن پر حکومت نے پابندی عائد کررکھی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کے باہمی روابط کو مذید بڑھانے کی ناگزیر ضرورت وقت کا اہم تقاضہ ہے تاکہ سی آئی اے کی شرپسندانہ اور تخریب کارانہ کاروائیوں کو روکا جاسکے۔ امریکہ بلوچستان کی ازادی کے حق میں قرارداد پاس کرچکا ہے۔ امریکہ بلوچستان میں گڑ بڑ انتشار اور دہشت گردانہ کاروائیوں میں افغان حکام اور تحریک طالبان کو استعمال کرسکتا ہے۔ امریکی ایجنٹ چاہے افغان ہوں یا پاکستانی وہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے ہوں یا ایجنسیوں کے کارپردازان انہیںسوچناچاہیے کہ کوئٹہ ہو یا قندھار کابل ہو یا بلوچستان میں اگر کسی ایک میں حالات خراب کرنے کی کوشش کی گئی تو دونوں برادر ملک پاک افغان سنگین نتائج بھگتیں گے۔ بحرف اخر امریکہ کابل میں شکست کے اخری دہانے پر پہنچ چکا۔ افغانستان کی ازادی اور بلوچستان کی سلامتی کے لئے دونوں ملکوں کو عوامی فوجی اور حکومتی سطح پرباہمی شراکت داری ناگزیر ہے۔ تحریر : رؤف عامر پپا