سعودی عرب کے صدر ابن سعود دور مصر کے موقع پر شاہ فاروق کے ہمراہنجد کا سعودی خاندان انیسویں صدی کے آغاز میں جزیرہ نمائے عرب کے بہت بڑے حصے پر قابض ہو گیا تھا لیکن مصری حکمران محمد علی پاشا نے آل سعود کی ان حکومت کو 1818 میں ختم کردیا تھا۔
سعودی خاندان کے افراد اس کے بعد تقریبا 80 سال پریشان پھرتے رہے یہاں تک کہ 20 ویں صدی کے اوائل میں اسی خاندان میں ایک اور زبردست شخصیت پیدا ہوئی جس کا نام عبدالعزیز ابن سعود تھا جو عام طور پر سلطان ابن سعود کے نام سے مشہور ہیں۔
سعودی حکومت کا قیام ابن سعود انیسویں صدی کے آخر میں اپنے باپ کے ساتھ عرب کے ایک ساحلی شہر کویت میں جلا وطنی کی زندگی گذار رہے تھے۔ وہ بڑے با حوصلہ انسان تھے اور اس دھن میں رہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے آبا و اجداد کی کھوئی ہوئی حکومت دوبارہ حاصل کرلیں۔
آخر کار 1902 میں جبکہ ان کی عمر تیس سال تھی، انہوں نے صرف 25 ساتھیوں کی مدد سے نجد کے صدر مقام ریاض پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد انہوں نے باقی نجد بھی فتح کرلیا۔ 1913 میں ابن سعود نے خلیج فارس کے ساحلی صوبے الحسا پر جو عثمانی ترکوں کے زیر اثر تھا، قبضہ کرلیا۔
اس کے بعد یورپ میں پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی جس کے دوران ابن سعود نے برطانیہ سے دوستانہ تعلقات تو قائم رکھے لیکن ترکوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد شریف حسین نے خلیفہ بننے کا اعلان کردیا تو ابن سعود نے حجاز پر بھرپور حملہ کردیا اور چار ماہ کے اندر پورے حجاز پر قبضہ کرلیا اور 8 جنوری 1926 کو ابن سعود نے حجاز کا بادشاہ بننے کا اعلان کردیا۔
سب سے پہلے جس ملک نے ابن سعود کی بادشاہت کو تسلیم کیا وہ روس تھا۔ روس نے 11 فروری 1926 کو حجاز و نجد پر سعودی حکومت کو تسلیم کیا لیکن برطانیہ نے تاخیر سے کام لیا اور معاہدہ جدہ کے بعد تسلیم کیا۔ اس طرح سعودی مملکت اپنے زوال کے ایک سو سال بعد ایک بار پھر پوری قوت سے ابھر آئی اور عرب کی سب سے بڑی طاقت بن گئی۔
موتمر اسلامی مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں پر قبضے کے بعد ابن سعود نے خلیفہ بننے کی کوشش نہیں کی بلکہ حجاز کا انتظام سنبھالنے اور جدید دور کے مسائل کو حل کرنے کے لیے انہوں نے 13 تا 19 مئی 1926 کے درمیان ساری دنیا کے مسلمان رہنمائوں پر مشتمل ایک موتمر اسلامی طلب کی جس میں تیرہ اسلامی ملکوں نے شرکت کی۔
موتمر میں اسلامی ہند کے ایک وفد نے بھی شرکت کی جس کی سب سے ممتاز شخصیت مولانا محمد علی جوہر تھے۔ اگرچہ یہ موتمر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکی لیکن اتحادِ اسلامی کی تحریک میں اس کو ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ مسلمانوں کا پہلا بین الاقوامی اجتماع تھا جسے ایک سربراہ مملکت نے طلب کیا تھا۔
تنازع یمن 1930 میں ابن سعود نے عسیر اور نجران کے علاقوں کو بھی سعودی مملکت میں شامل کرلیا۔ یہ دونوں علاقے چونکہ یمن کی سرحد پر واقع تھے اور ان پر یمن کا بھی دعوی تھا اس لیے سعودی عرب کا یمن سے تصادم ہو گیا۔ سعودی عرب کی فوجوں نے جو یمن کی فوجوں کے مقابلے میں زیادہ منظم اور دینی جذبے سے سرشار تھیں، یمن کو بھی شکست دے دی اور 1934 میں یمن کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرلیا لیکن اسی سال بعض ممتاز مسلمانوں کی کوششوں سے جن میں امیر شکیب ارسلان کا نام قابل ذکر ہے، طائف میں سعودی عرب اور یمن کے درمیان 20 مئی 1934 کو ایک معاہدہ ہو گیا اور سعودی فوجوں کو یمن سے واپس بلا لیا گیا۔
سعودی افواج نے اس سے پہلے اردن کو بھی اپنے دائر اقتدار میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انگریزوں کے دبائوکی وجہ سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ اگر ابن سعود اردن اور یمن کی مہمات میں کامیاب ہوجاتے تو پورا جزیرہ نمائے عرب ان کے تحت آجاتا لیکن اس وقت بھی ابن سعود کی حکومت رقبے کے لحاظ سے ایشیا میں سب سے بڑی عرب حکومت تھی اور یمن، عمان اور بعض ساحلی علاقوں کو چھوڑ کر پورے جزیرہ نمائے عرب پر سعودی بالادستی قائم تھی۔
22 ستمبر 1932 کو نجد و حجاز کی اس نئی حکومت کو سعودی عرب کا نام دیا گیا۔
اصلاحات ابن سعود اور ان کے نجدی ساتھی چونکہ محمد بن عبدالوہاب کے پیرو تھے، جو ایک عظیم مصلح تھے، اس لیے ابن سعود نے اسلامی تعلیمات پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی کوشش کی۔ ابن سعود بادشاہت کو تو ختم نہ کرسکے لیکن وہ سارے کام علما کی ایک مجلس سے مشورے سے انجام دیتے تھے اور انہوں نے اس کی پوری کوشش کی کہ ملک میں اسلامی احکام پر عمل کیا جائے۔
انہوں نے سارے ملک میں شراب کی خرید و فروخت بند کردی جو ترکوں کے دور میں حجاز وغیرہ میں عام ہو گئی تھی۔ ابن سعود جب تک زندہ رہے دوسری معاشرتی برائیوں کو بھی پھیلنے کا موقع نہ دیا۔ دینی تعلیم کے فروغ کے لیے 1948 میں جامعہ ازہر کے طرز پر ایک فقہ کالج قائم کیا۔
ابن سعود میں تدبر اور انتظامی صلاحیت کی وہ تمام خوبیاں تھیں جو ایک بانی حکومت میں ہونی چاہئیں۔ انہوں نے اپنے پڑوسی ممالک سے جھگڑے طے کرنے میں جس دور اندیشی، اعتدال پسندی اور وسعت قلبی کا ثبوت دیا، وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے۔
ان کے بڑے کارناموں میں عرب کے خانہ بدوشوں کو بستیوں میں آباد کرنا اور انہیں زراعت پر مائل کرنا تھا جبکہ ان کی حکومت نے لوگوں کی اخلاقی تربیت کا بھی انتظام کیا۔ ابن سعود کا ایک اور کارنامہ ملک میں امن و امان کا قیام ہے حتی کہ مورخین نے یہ تک لکھا ہے کہ سرزمین عرب میں کامل امن و امان قائم کرنے میں تاریخ میں صرف دو آدمی کامیاب ہوئے۔
ایک حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے ابن سعود چونکہ عرب کا بیشتر علاقہ ریگستان اور بنجر پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے اس لیے آمدنی کے ذرائع کم ہیں اس لیے سلطان ابن سعود ملک کو معاشی و تعلیمی لحاظ سے زیادہ ترقی نہ دے سکے لیکن ان کے آخری دور حکومت میں عرب میں مٹی کے تیل کے کنوئیں اس کثرت سے نکالے آئے کہ ملک کی کایا پلٹ گئی اور حکومت کو کروڑوں روپے سالانہ آمدنی ہونے لگی۔
تیل کی دریافت سے پہلے 1928 میں سعودی عرب کی کل آمدنی 70 لاکھ ڈالر تھی اور اس میں سے نصف رقم حاجیوں پر ٹیکس لگا کر وصول کی جاتی تھی لیکن ابن سعود کے عہد کے آخری دنوں میں صرف تیل سے ہونے والی آمدنی تین کروڑ 60 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی۔ اس فاضل آمدنی سے سلطان نے کئی مفید اور تعمیری کام کیے جن میں سب سے اہم کام ریل کی پٹری بچھانا تھا۔
یہ پٹری خلیج فارس کی بندرگاہ دمام سے دارالحکومت ریاض بچھائی گئی جو ساڑھے تین سو میل لمبی ہے اور 1951 میں مکمل ہوئی۔ ابن سعود کا 51 سالہ دور حکومت 1953 میں ان کے انتقال کے ساتھ ختم ہوا۔ وہ سعودی حکومت کے حقیقی بانی تھے اور انہوں نے ایک پسماندہ اور بے وسائل ملک کو جس طرح ترقی کے راستے پر ڈالا، اس کی وجہ سے ان کا شمار بلا شک و شبہ تاریخ اسلام کے ممتاز حکمرانوں میں ہوتا ہے۔
ابن سعود وہابی عقیدہ رکھتے تھے۔ انھوں نے حجاز پر قبضہ کرنے کے بعد جنت البقیع (مدینہ) میں صحابہ کرام اور اہل بیت کی قبروں کو مسمار کرادیا۔ سعودی عرب میں آجکل آل سعود ہی کی حکومت ہے۔