عدلیہ، فوج اور آئی ایس آئی سے عوامی توقعات

Faridi

Faridi

ایبٹ آباد میں اْسامہ بن لادن کی ہلاکت کے  بعد حسین حقانی سے منسوب امریکی افواج کے  سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کو لکھے  گئے  متنازع میمو میں پاکستانی افواج کو جمہوری حکومت کے  خلاف ممکنہ کارروائی سے  روکنے کے  لیے  مدد طلب کی گئی تھی۔پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف کی طرف سے متنازع میمو کے خلاف دائر کی جانے  والی اس درخواست پر سپریم کورٹ نے یکم دسمبر کو صدر آصف علی زرداری، وفاق، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی، آئی ایس آئی کے  ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا، حسین حقانی اور پاکستانی نڑاد امریکی شہری منصور اعجاز کو نوٹس جاری کیے  تھے ۔ان افراد کو دو ہفتوں میں اپنے  جواب داخل کروانے  کے  بارے  میں کہا گیا  جسکے بعدپاکستان کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی’ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا اور امریکی شہری منصور اعجاز نے   اپنے  اپنے  بیانات داخل کرا دیئے   جبکہ صدر آصف علی زرداری کی جانب سے  جواب داخل نہیں کرایا گیا اور اٹارنی جنرل نے  فاضل عدالت عظمٰی کے  روبرو موقف اختیار کیا کہ صدر مملکت کوآئینی استثنیٰ حاصل ہونے  کے  باعث انکی جانب سے  جواب داخل نہیں کرایا جائیگا۔ انہوں نے  گزشتہ روز دوران سماعت اس کیس کی سماعت سے  متعلق سپریم کورٹ کے  اختیار کو بھی چیلنج کیااور وفاق پاکستان کی جانب سے  موقف اختیار کیا کہ عدالت عظمٰی اس کیس کی سماعت نہیں کر سکتی اس لئے  میاں نواز شریف کا دائر کردہ یہ کیس خارج کیا جائے ۔ دوسری جانب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے  میمو سیکنڈل کو پارلیمنٹ کیخلاف سازش قرار دیا ہے  اور کہا کہ حکومت کو فوج یا کسی اور ادارے  سے  خطرہ نہیں ہے  ۔قارئین! سپریم کورٹ کے  روبرو آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی جانب سے  داخل کرائے  گئے۔   بیانات سے  یہ عندیہ مل رہا ہے  کہ میموگیٹ کے  پس منظر میں ملکی اور قومی سلامتی اور افواج پاکستان کیخلاف گہری سازشیں کارفرما رہی ہیں جنہیں اب بے  نقاب کئے  بغیر آئندہ کیلئے  ایسی سازشوں کا دروازہ بند نہیں کیا جا سکتا۔اگر حسین حقانی سے  منسوب میمو کی کوئی حقیقت  نہ ہوتی تو آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا  کبھی بھی امریکہ نہ جاتے۔ جبکہ جنرل پاشا کی میمو سے  متعلق پیغام رساں منصور اعجاز سے  ملاقات اور پوچھ گچھ کے  دوران کئی حقائق کھل کر سامنے  آگئے ۔ علاوہ ازیں  اگر متعلقہ حکومتی شخصیات کا دامن میموگیٹ سکینڈل میںصاف ہوتا اور میمو کا سرے  سے  کوئی وجود ہی نہ ہوتا تو حکومت کو خود ہی اس معاملہ کی آزادانہ اور غیرجانبدارانہ انکوائری فوری طور پر کرا دینی چاہیے  تھی جس سے  افواہوں’ قیافوں اور قیاس آرائیوں کی بھی نوبت نہ آتی اور حکومتی اور عسکری قیادتوں کے  مابین کسی قسم کی غلط فہمی بھی پیدا نہ ہو پاتی مگر حکومت نے  منصوراعجاز کے  مضمون اور بیانات پر پہلے  تو خاموشی سادھے  رکھی اور جب یہ معاملہ ملکی اور غیرملکی میڈیا پر لیڈنگ سٹوری کے  طور پر اجاگر ہونے  لگا تو حکومتی ترجمانوں نے  منصور اعجاز کی شخصیت کو فوکس کرکے  الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کر دیا جس سے  معاملہ سلجھنے  کے  بجائے  مزید الجھ گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ حکومت اپنے  سفیر کی قربانی دے  کر بھی میمو کے  حوالے  سے  خود پر آنیوالے  الزامات میں اپنی پاک دامنی ثابت نہ کر سکی چنانچہ اپوزیشن کے  قائدمیاں نواز شریف کو اس سنگین قومی ایشو پر دادرسی کیلئے  مجبوراً عدالت عظمٰی کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا جسے  اب وزیراعظم پاکستان  پارلیمنٹ کیخلاف سازش سے  تعبیر کر رہے  ہیں اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کر رہے  ہیں کہ حکومت کو فوج یا کسی اور ادارے  سے  کوئی خطر نہیں ہے۔
اب جبکہ آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کی جانب سے  داخل کرائے  گئے  بیانات میں میمو کو حقیقت اور ملک اور فوج کیخلاف سازش قرار دیا گیا ہے  تو حکمرانوں کو اس پر سیخ پا ہونے  اور حکومت کیخلاف کسی سازش کی کڑیاں ملا کر ان کا ناطہ افواج پاکستان’ عدلیہ اور اپوزیشن کے  ساتھ جوڑنے  کے  بجائے  تمام حقائق سپریم کورٹ کے  سامنے  لے  آنے  چاہئیں۔سپریم کورٹ میں میمو کیس کی سماعت کے  دوران چیف جسٹس نے  اٹارنی جنرل کو باور کرایا ہے  کہ صدر اس مقدمہ میں فریق ہیں۔ انکی طرف سے  جواب آیا نہ الزامات سے  انکار ہوا۔ انکار نہ کرنے  کا مطلب الزام قبول کرنا ہے ۔میمو سکینڈل کے  عدالت میں آنے  کے  بعد سے  نہ صرف حکومت عدلیہ کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی بلکہ بعض حکومتی حکام  عدالت کے  بارے  میں ایسے  ریمارکس دے  رہے  ہیں جو صریحاً توہین عدالت کے  زمرے  میں آتے  ہیں، سپریم کورٹ نے  اس معاملہ کا بھی سخت نوٹس لیا لیکن وزیر اعظم کی طرف سے  کسی کے  خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ سپریم کورٹ نے  قرار دیا کہ صبر کا امتحان نہ لیا جائے ‘ ہرگز قانون اور انصاف کے  راستے  میں کسی کو رکاوٹ ڈالنے  اور عدلیہ کا مذاق اڑانے  کی کھلی چھٹی نہیں ہونی چاہیے ۔ وزیر اعظم نے  عدالت کے خلاف ریمارکس پر کیا نوٹس لینا تھا وہ توخود این آر او سمیت کئی فیصلوں پرعملدرآمد کرنے  پر تیار نہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ  وزیر اعظم میمو کو جھوٹا اور حکومت کے خلاف سازش قرار دے  رہے  ہیں۔
قارئین مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اپنے ایک کالم میں جنرل اشفاق پرویز کیانی پر زور دیا تھا کہ  آئی ایس آئی کے زیر کنٹرول ایک تھنک ٹینک قائم کریں جس میں ملک کے بارے میں سوچ اور فکر رکھنے والے لوگ مثلاً  محب وطن سائنسدان، دانشور، بیوروکریٹس، آرمی کے جرنیل اور دیگر اہل ِ علم لوگ شامل ہوں جو داخلی اور خارجی پالیسیوں پر اپنی سفارشات مرتب کریں جسکے بعد صدر اور وزیر اعظم انکی  سفارشات پر عمل کرنے کا پابند ہو۔میموگیٹ کے  پس منظر میں ملکی اور قومی سلامتی اور افواج پاکستان کیخلاف جو گہری سازشیں کارفرما رہی ہیں اُس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وطنِ عزیز سے محبت کرنے والے سائنسدانوں،دانشوروں،بیوروکریٹس ،آرمی کے جرنیلوں اور ریٹائر ججوں پر مشتمل ایک تھنک ٹینک ضروری تھا جو آج حکومت اور میمو گیٹ میں ملوث افراد کے راستے روکتا اور اعلی عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے قانونی جنگ لڑتا۔بہر حال پاکستانی قوم ابھی بھی مایوس نہیں ہوئی اور محب وطن  فوج ،آئی ایس آئی اور عدلیہ سے بہت ساری توقعات وابستہ کئے ہوئے ہے کیونکہ یہی ادارے ملکی سلامتی کے دفاع کے لئے ابھی تک کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔جبکہ سپریم کورٹ سے مودبانہ گزارش ہے کہ فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے پاکستان کی عسکری قیادتوں کو بھی استعمال کریں تاکہ آئندہ کوئی بھی حکومت یا فرد عدالتی حکم عدولی کرنے کی ہمت نہ کرے۔دوسری جانب عسکری قیادت اور آئی ایس آئی سے بھی گزارش ہے کہ حکمرانوں اور دیگر سیاستدانوں کی مانیٹرنگ کو فعال بنایا جائے تاکہ ملکی سلامتی کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہ ہو سکے۔

تحریر:  محمد اکرم خان فریدی