گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں پارلیمان کی بالادستی کے حوالے سے بحث چل رہی ہے۔ اس بحث کا بنیادی نکتہ اور استدلال یہ ہے کہ چونکہ پارلیمنٹ عوام کا نمایندہ ادارہ ہے لہذا اسے دیگر تمام اداروں پر بالادستی حاصل ہے۔ یہ دراصل وہ نظریہ ہے جو انگلستان میں بادشاہ اور چرچ کے مابین کشمکش کے زمانے میں عوامی نمایندوں کی اتھارٹی کو تقویت دینے کی خاطر اختیار کیا گیا تھا۔اس سلسلہ میںچیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ایبٹ آباد آپریشن پر میڈیا کے کردار سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔
سپریم کورٹ ہی حتمی فیصلے کا ادارہ ہے اور اس حوالے سے ہماری پوزیشن بالکل واضح ہے، سپریم کورٹ کی آئینی اتھارٹی پر کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ آئین پارلیمنٹ سے بالا دست ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے ضمن میں جو اصحاب یہ دلیل دیتے ہیں کہ چونکہ پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے لہذا وہ بالاتر ہے وہ اس موقع پر یہ حقیقت فراموش کر دیتے ہیں کہ ایک آئین کے تحت وجود میں آنے والی پارلیمنٹ قانون ساز ادارہ تو یقینا ہوتی ہے مگر وہ آئین ساز ادارہ نہیں ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون بنا سکتی ہے جو آئین سے متصادم یا متضاد ہو۔اسی طرح آئین نے سپریم کورٹ کو تشریح کا حق دیا ہے۔پارلیمنٹ آئین کی تشریح نہیں کرسکتی۔ جس طرح پارلیمنٹ آئین سے متصادم قوانین نہیں بنا سکتی۔
اسی طرح سپریم کورٹ بھی آئین سازی نہیں کرسکتی۔ دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات قمرزمان کائرہ نے پارلیمان کو سپریم ادارہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے مطابق کوئی اور ادارہ نہیں بلکہ پارلیمان ہی کسٹوڈین ہے۔ عدلیہ اور فوج دونوں ریاست کے اعضا ہیں، دونوں اپنی جگہ اہم ہیں ۔اس سے قبل چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کہ چکے ہیںکہ کسی بھی فرد یا ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملکی مفاد کا حتمی تعین کر سکے یہ صرف اتفاق رائے سے ہی ممکن ہے۔
عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا منبع ہے، اداروں کی مضبوطی قانون کی بالادستی اور سب اداروں کا آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی ایک بہتر مستقبل کی ضمانت ہے جبکہ کچھ کر گزرنے کی تیزی کے مثبت اور منفی دونوں نتائج مرتب ہو سکتے ہے۔
قارئین۔۔۔آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ ایک دوسرے سے بالا تر نہیں بلکہ آئین کی دی ہوئی حدود اور اختیارات کے اندر رہ کر کام کرتے ہیں۔ آئین کا آرٹیکل204 واضح کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص عدالت کے حکم سے روگردانی کرے عدالت کو بدنام کرے یا کوئی ایسا عمل کرے جس سے عدالت کی توہین تضحیک یا عداوت کا پہلو نکلتا ہو تو عدالت ایسے شخص کو سزا دینے کی مجاز ہے۔ آئین کو ملک کے ہر ستون پر فوقیت حاصل ہے یعنی انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے اراکین تمام کے تمام آئین کے تابع ہیں۔ ملک کے تمام شہریوں کے لیے قانون برابر ہے۔
ملکی اور غیر ملکی ہر شہری پر ملک کے آئین و قانون کی پاسداری لازم ہے۔ پارلیمان کی بالادستی کا تصور اب برطانیہ میں بھی رائج نہیں رہا جہاں کہ اس کا ظہور ہوا تھا۔ لہذا بہتر ہو گا کہ آزادی کی چھ دہائیاں گزر جانے کے بعد ہماری قوم بھی برطانیہ کی متروک روایات اور نظریات کی ذہنی غلامی چھوڑ دے اور خود کو پاکستان کے آئین کا پابند بنائے۔ آئین کا آرٹیکل2 اے عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ اور عدالتیں بھی ملکی قانون کے تابع ہیں لہذا ملک میں آئین اور قانون کی ہی حکمرانی ہونی چاہیے۔ آرٹیکل 5 کے تحت ریاست سے وفاداری تمام شہریوں کی بنیادی ذمے داری ہے۔ آئین سے متصادم اقدامات کو اعلی عدلیہ ختم کرتی رہی ہے لہذا یہ آئین ہی ہے جس پر عمل کرنا ہے جس کی حفاظت کرنا ہے اور جس کی پیروی کرنا ہے۔ آئین ججوں کی بنائی ہوئی دستاویز نہیں، یہ ملک کے 18 کروڑ عوام کی منشا کا مظہر ہے اسی طرح توہین عدالت کا قانون بھی عدالتوں یا ججوں کی انا کی تسکین کے لیے نہیں ہے۔
Chief Justice Pakistan
چیف جسٹس نے بہت سے ابہام دور کردیے ہیں۔ پارلیمانی بالادستی کا خالص اور مطلق العنان تصور عہد حاضر کے برطانیہ میں بے محل ہے اور نہ ہی یہ تصور ہمارے آئین کے مزاج سے موافقت رکھتا ہے لہذا یہ تاثر غلط ہے کہ صرف منتخب نمایندے ہی عوام کی منشا کے بلاشرکت غیرے ترجمان ہیں۔ اس اعتبار سے یہ منتخب نمایندے ریاست کے کسی بھی عضو بشمول عدالت کے سامنے جوابدہ ہیں بلکہ عدلیہ بھی عوام کی منشا کا اظہار کرتی ہے۔ بہرحال یہ بہت پیچیدہ اور گنجلک بحث ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنی 5سالہ آئینی مدت اقتدار پوری کرنے کے قریب ہے بدقسمتی سے اس نے اکثر سیاسی فیصلے کرتے وقت عوامی جذبات، ملکی و قومی مفادات کو قرار واقعی اہمیت دینے کی ضرورت کا احساس نہیں کیا جس سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ پارلیمان عوام کی فلاح و بہبود کو فراموش کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ عوام کا یہ تاثر ہی پارلیمنٹ پر حملوں کے تاثر کو تقویت دینے کا باعث ہے۔ اگر حکمران اور سیاستدان ملک میں پارلیمنٹ اور جمہوریت کے استحکام اور جمہوری اقدار کا فروغ اور جمہوری اداروں پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی پالیسی پر نظرثانی میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔
انہیں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ ماضی میں مہم جو اور مفاد پرست عناصر کی طرف سے جمہوریت کی بساط لپیٹنے ، مارشل لا نافذ کرنے اور اسمبلیاں تحلیل کرنے پر بھی تو اس کے خلاف عوامی حلقوں میں کوئی موثر آواز بلند نہ ہوئی بلکہ بعض حلقے ایسے بھی تھے جنہوں نے اس کا خیرمقدم کیا اور متعدد سیاستدان بھی اس غیرجمہوری نظام حکومت کا حصہ بن کر شریک اقتدار ہوگئے۔ چنانچہ جب 1954 اور 1958 میں اسمبلیوں کو تحلیل کیا گیا تو ملک سیاسی ہی نہیں شدید غذائی بحران کی لپیٹ میں آ گیا۔ اس طرح 1988اور 1999میں جمہوری حکومت کی بساط لپیٹے جانے کے وقت بھی ملک شدید معاشی بحران کا شکار تھا۔ اس حوالے سے حکمرانوں پر عائد کئے جانے والے الزامات کتنے غلط اور کتنے صحیح تھے اس سے قطع نظر ہمارے سیاستدانوں نے ملک میں اچھی گورننس قائم کرنے کی کوئی بارآور کوشش بھی نہیں کی جس سے اس موقف کو تقویت ملتی رہی کہ کوئی دوسری قوت ایوانِ اقتدار میں برا جمان ہو کر نظام کو سنبھالے اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ملک بار بار مارشل لا کی لپیٹ میں آتا چلا گیا اور جمہوریت اور جمہوری ادارے مسلسل کمزور ہوتے چلے گئے۔
جس نے عوام کے اعتماد کو بھی مجروح کیا کیونکہ پارلیمان عوام کی فلاح و بہبود کو مسلسل نظر انداز کرتی چلی گئی اور پارلیمان یہ تاثر پیدا نہ کر سکی کہ وہ ایک عوامی فلاحی ادارہ ہے جس کا نتیجہ یہ تھا کہ پارلیمان مفاد پرست اور مہم جو عناصر کے حملوں کی زد میں آتی رہی۔ حکومت کے لئے یہ امر خوش قسمتی کا باعث ہے کہ ناقص کارکردگی اور عوامی فلاح و بہبود کے حوالے سے وابستہ توقعات پر پوری نہ اترنے کے باوجود وہ اپنی آئینی مدت اقتدار پوری کرنے کے قریب پہنچ چکی ہے اور یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ملک کی آزاد عدلیہ نے کسی مفاد پرست اور مہم جو عناصر کو حکومتی اقتدار کو نقصان پہنچانے اور اس کی بساط لپیٹنے کا موقع نہیں دیا بلکہ ایسی سوچ کی راہ میں عدل و انصاف کی یہ کہہ کر دیوار کھڑی کر دی کہ نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے عسکری قیادت کی دانشمندی بنیادی اہمیت رکھتی ہے جنہوں نے ہر مہم جو اور مفاد پرست قوت کی حوصلہ افزائی سے مکمل گریز کیا اور اہم قومی معاملات میں سیاسی قیادت سے مشاورت کو دونوں قوتوں کے درمیان اعتماد کو فروغ دینے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے حکومت کو اس کی آئینی مدت اقتدار پوری کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
فوج نے بطور ادارہ ان جرنیلوں کو عدالت کے سامنے پیش کرنے یا ان کے احتساب کے حوالے سے کسی منفی ردعمل کا مظاہرہ کیا نہ ہی اس راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے جو دلائل دیے جارہے ہیں، ان میں بھی وزن ہے۔ لیکن اصل بات یہی ہے کہ ادارے اپنی حدود میں رہیں تو کوئی جھگڑا پیدا نہیں ہوتا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان میں آئین کی بالادستی اور اس پر عمل کرنے کا کلچر بتدریج جڑ پکڑے گا، آئین اور قانون کی بالادستی، عدلیہ کا احترام، جمہوریت کا استحکام اور سکیورٹی اداروں کی عزت و احترام سب کی اولین ترجیح ہوگا توسارے ملکی مسائل خوش اسلوبی سے حل ہوجائیں گے۔